واشنگٹن —
امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتا دیا ہے کہ 2012ء میں لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر ہونے والے مہلک حملے کا مشتبہ سرغنہ مزید امریکیوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر، سمنتھا پاور نے ایک مراسلے میں کہا ہے کہ اتوار کو بن غازی کے قریب احمد ابو خطالہ کو حراست میں لیا جانا اس لحاظ سے جائز تھا تاکہ مزید حملوں کو روکا جاسکے، اور یہ امریکہ کے ’اپنے دفاع کے فطری حق‘ سے عین مطابقت رکھتا ہے۔
اُن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے بن غازی کا حملہ کیا جس میں چار امریکی ہلاک ہوئے، جن میں سفیر کرسٹوفر اسٹیونز بھی شامل تھے۔
امریکی حکام 40 سالہ ابو خطالہ سے بحری بیڑے، ’یو ایس ایس نیو یارک‘ پر پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ یہ مال بردار بحیری بیڑا بحر اقیانوس میں ہے۔
امریکی محکمہٴانصاف نے بدھ کے روز بتایا کہ اُنھیں واشنگٹن لایا جائے گا، جہاں وہ دہشت گردی سے متعلق تین الزامات کا سامنا کریں گے، جس میں سےایک میں، سزا کی صورت میں، اُنھیں موت کی سزا ہو سکتی ہے۔
امریکی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اُن کا مقدمہ فوجی ٹربیونل میں نہیں بلکہ ایک عام سویلن عدالت میں چلایا جائے گا، اور اُنھیں اپنے دفاع کے لیے وکیل کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ حکام نے اُن کی امریکہ آمد کے نظام الاوقات کا اعلان نہیں کیا۔
یہ گرفتاری خصوصی کارروائیوں پر مامور امریکی افواج کی طرف سے عمل میں لائی گئی، جس میں کوئی ہلاکت واقع نہیں ہوئی، اور اُنھیں ملک سے باہر لے جایا گیا۔
تاہم، کارروائی سے قبل امریکہ نے لیبیا کو کوئی اطلاع نہیں دی، بالکل ویسے ہی جیسے 2011ء میں پاکستان کے اندر کیے جانے والے خصوصی آپریشن کی پاکستان کو اطلاع نہیں دی گئی تھی، جس میں 2001ء میں امریکہ کے خلاف دہشت گرد حملوں کے سرغنے، اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا۔ امریکہ کے خلاف 11 ستمبر کے دہشت گرد حملوں میں تقریباً 3000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
لیبیا کے آپریشن پر طرابلس کی طرف سے برہمی کا اظہار کیا گیا۔
لیبیا کی وزارت خارجہ کے نے اس کارروائی کو ’لیبیا کے اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی افسوس ناک اور قابل مذمت‘ قرار دیا۔ لیبیا نے ابو خطالہ کو مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے ملک واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم، یہ انتہائی ناممکن ہے کہ امریکہ اس سے اتفاق کرے۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر، سمنتھا پاور نے ایک مراسلے میں کہا ہے کہ اتوار کو بن غازی کے قریب احمد ابو خطالہ کو حراست میں لیا جانا اس لحاظ سے جائز تھا تاکہ مزید حملوں کو روکا جاسکے، اور یہ امریکہ کے ’اپنے دفاع کے فطری حق‘ سے عین مطابقت رکھتا ہے۔
اُن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے بن غازی کا حملہ کیا جس میں چار امریکی ہلاک ہوئے، جن میں سفیر کرسٹوفر اسٹیونز بھی شامل تھے۔
امریکی حکام 40 سالہ ابو خطالہ سے بحری بیڑے، ’یو ایس ایس نیو یارک‘ پر پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ یہ مال بردار بحیری بیڑا بحر اقیانوس میں ہے۔
امریکی محکمہٴانصاف نے بدھ کے روز بتایا کہ اُنھیں واشنگٹن لایا جائے گا، جہاں وہ دہشت گردی سے متعلق تین الزامات کا سامنا کریں گے، جس میں سےایک میں، سزا کی صورت میں، اُنھیں موت کی سزا ہو سکتی ہے۔
امریکی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اُن کا مقدمہ فوجی ٹربیونل میں نہیں بلکہ ایک عام سویلن عدالت میں چلایا جائے گا، اور اُنھیں اپنے دفاع کے لیے وکیل کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ حکام نے اُن کی امریکہ آمد کے نظام الاوقات کا اعلان نہیں کیا۔
یہ گرفتاری خصوصی کارروائیوں پر مامور امریکی افواج کی طرف سے عمل میں لائی گئی، جس میں کوئی ہلاکت واقع نہیں ہوئی، اور اُنھیں ملک سے باہر لے جایا گیا۔
تاہم، کارروائی سے قبل امریکہ نے لیبیا کو کوئی اطلاع نہیں دی، بالکل ویسے ہی جیسے 2011ء میں پاکستان کے اندر کیے جانے والے خصوصی آپریشن کی پاکستان کو اطلاع نہیں دی گئی تھی، جس میں 2001ء میں امریکہ کے خلاف دہشت گرد حملوں کے سرغنے، اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا۔ امریکہ کے خلاف 11 ستمبر کے دہشت گرد حملوں میں تقریباً 3000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
لیبیا کے آپریشن پر طرابلس کی طرف سے برہمی کا اظہار کیا گیا۔
لیبیا کی وزارت خارجہ کے نے اس کارروائی کو ’لیبیا کے اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی افسوس ناک اور قابل مذمت‘ قرار دیا۔ لیبیا نے ابو خطالہ کو مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے ملک واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم، یہ انتہائی ناممکن ہے کہ امریکہ اس سے اتفاق کرے۔