رسائی کے لنکس

بجٹ کٹوتی پر دونوں جماعتوں کا سخت موقف برقرار


صدر براک اوباما
صدر براک اوباما

لازمی کٹوتی کو بلاک کرنے کے لیے، کانگریس کو یکم مارچ تک بجٹ میں کمی کے متبادل اقدامات منظور کرنے ہوں گے ۔

صدر براک اوباما اور امریکی کانگریس کے ریپبلیکن ارکان کے درمیان بجٹ کے معاملے میں زبردست ٹکراؤ ہونے والا ہے ۔ اس معاملے کا تعلق 85 ارب ڈالر کی اس لازمی کٹوتی سے ہے جو یکم مارچ کو کرنی پڑے گی۔ اس سے بچنے کی صورت صرف یہ ہے کہ قانون ساز خسارے کو کم کرنے کے لیے کسی اور انتظام پر متفق ہو جائیں۔ لازمی کٹوتی کرنی پڑی تو داخلی اور فوجی اخراجات میں برابر کی کمی ہوگی۔ واشنگٹن میں آج کل دونوں پارٹیوں کا رویہ بہت سخت ہو گیا ہے، اور بظاہر تصفیےکی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔

اگست 2011 میں ، صدر اوباما نے دس سال کے عرصے میں سرکاری اخراجات میں ایک ٹریلین ڈالر کمی کرنے کی تجویز پیش کی ۔ ان کے خیال میں اخراجات کم کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ تھا کہ بجٹ میں لازمی طور پر کٹوتی کی جائے۔

بیشتر تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی کہ کانگریس نے اس تجویز سے یہ سمجھتے ہوئے اتفاق کر لیا کہ لازمی کٹوتی کی ضرورت کبھی نہیں پڑے گی کیوں کہ قانون ساز ایسی نوبت آنے سے پہلے ، سرکاری اخراجات میں کمی کرنے کے کسی متبادل طریقے پر مصالحت کر لیں گے ۔

لیکن اس دور میں جب واشنگٹن میں سیاست دانوں کے درمیان اختلافات کی خلیج بہت وسیع ہو گئی ہے، مصالحت کا حصول بہت مشکل ہو گیا ہے ۔ صدر اوباما نے اپنی حالیہ اسٹیٹ آف یو نین تقریر میں قانون سازوں کو اور عوام کو لازمی کٹوتی کے نتائج کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے کہا ’’اس طرح ہماری ترجیحات پر جیسے تعلیم اور توانائی اور میڈیکل ریسرچ پر تباہ کن اثرات پڑیں گے۔ ہمارا اقتصادی بحالی کا عمل یقینی طور پر سست پڑ جائے گا، اور لاکھوں لوگوں کا روزگار ختم ہو جائے گا۔‘‘

ریپبلیکنز بھی اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر، ریاست اوہایو کے کانگریس مین جان بینر نے کہا ہے’’لازمی کٹوتی اس وقت تک مؤثر رہے گی جب تک اخراجات کم نہیں کیے جاتے اور اصلاحات نہیں کی جاتیں جن کے ذریعے ہم اگلے دس برسوں میں اپنے بجٹ کو متوازن کر سکیں۔‘‘

تجزیہ کار کہتےہیں کہ قدامت پسندوں کے خیال میں سرکاری اخراجات کو صحیح معنوں میں کم کرنے کا بہترین طریقہ صرف یہی ہے کہ لازمی کٹوتی کی جائے۔ امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ کے نارم اورنسٹیئن کہتے ہیں’’خاص طور سے بہت سے قدامت پسند، جو کانگریس میں ہیں اور اس کے باہر ہیں جیسے اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے ادارتی صفحے کے لوگ، ریڈیو کے ٹاک شو کے میزبان جیسے رش لمبا، کہہ رہے ہیں کہ کوئی پرواہ نہیں، لازمی کٹوتی ہو کر رہے گی ۔ بجٹ میں تخفیف کا اس کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔ پریشانی ہو گی تو ہوا کرے ۔ ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیئے۔‘‘

اورنسٹیئن کہتے ہیں کہ ریپبلیکنز صدر اوباما کی گذشتہ نومبر میں انتخاب میں فتح کے بعد، انہیں براہ راست چیلنج کر رہے ہیں، اور اس طرح وہ کچھ خطرہ بھی مول لے رہے ہیں۔ ’’بہت سے معاملات میں صدر کو بالا دستی حاصل ہے۔ ان کی مقبولیت کی شرح اونچی ہے۔ کانگریس کی مقبولیت کی شرح نیچی ہے، اور کانگریس میں ریپبلیکنز خاص طور سے کچھ زیادہ مقبول نہیں ۔ امریکی اس قسم کی باتوں کو پسند نہیں کرتے۔‘‘

لازمی کٹوتی کو بلاک کرنے کے لیے، کانگریس کو یکم مارچ تک بجٹ میں کمی کے متبادل اقدامات منظور کرنے ہوں گے ۔ لیکن اورنسٹیئن کہتے ہیں کہ وقت تنگ ہوتا جا رہا ہے ۔

’’اصل خطرہ یہ ہے کہ دونوں فریقوں میں ٹکراؤ ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں صحیح معنوں میں کچھ نقصان ہو سکتا ہے ۔ بالآخر اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل تو نکل آئے گا لیکن اس دوران کچھ نقصان ہو چکا ہوگا، اور اس کے اثرات دور رس ہوں گے۔‘‘

پراگریسو پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار جم آرکڈس کہتے ہیں کہ لازمی کٹوتی سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی بین الاقوامی امداد اور فوجی امداد متاثر ہوگی جس سے ہمارے اتحادیوں کے لیے مسائل پیدا ہوں گے ۔’’میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کو اس معاملے میں پریشانی ہے، خاص طور سے وہ ملک پریشان ہیں جنہیں امریکی امداد، وہ چاہے انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہو یا فوجی امداد ہو ، ملنے کی توقع ہے ۔ یہ ملک نروس اور پریشان ہیں۔‘‘

کوئی بھی فریق لازمی کٹوتی سے بچنے کے لیے کچھ کرنے کی جلدی میں نہیں ہے ۔ ریپبلیکنز کے لیے سرکاری اخراجات میں کمی کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے ۔ ڈیموکریٹس سمجھتے ہیں کہ انہیں اس سے سیاسی فائدہ حاصل ہو گا، کیوں لازمی کٹوتی سے سرکاری خدمات میں جو خلل پڑے گا، اس کے لیے عام لوگ بڑی حد تک ریپبلیکنز کو الزام دیں گے ۔
XS
SM
MD
LG