امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب میں ہیں جہاں وہ اتوار کو ہونے والی اپنی نوعیت کی پہلی امریکن، اسلامک عرب کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔
اس کانفرنس میں امریکی صدر کے خطاب پر سب کی نظریں ہیں کیونکہ یہ مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکہ کی پالیسی کا جائزہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ نئی امریکی انتظامیہ کی خطے اور خصوصاً مسلمان ممالک کے لیے سوچ کو اجاگر کرے گی۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ صدر ٹرمپ اپنے خطاب میں مسلمان راہنماؤں سے انتہا پسندی کے خلاف متحدہ لائحہ عمل اور کوششوں پر زور دیں گے۔
امریکی صدر کی توجہ تہذیبوں کے تصادم کی بجائے اچھے اور برے کے فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے دہشت گردی و انتہا پسندی کی بیخ کنی پر ہوگی۔
پاکستان میں مبصرین امریکی صدر کے خطاب کے مندرجات کو خطے میں طاقت کے توازن کے لیے اور عدم استحکام کے خاتمے کے لیےایک حوصلہ افز پیش رفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی کہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کے خاتمے کے لیے امریکہ کا کردار بہت اہم ہے جس میں علاقائی ممالک کا تعاون اسے مزید تقویت بخشے گا۔
"مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے عسکری رجحانات پر قابو پانے کے لیے بڑا ضروری ہے کہ دو تین ملک امریکہ کے ساتھ چلیں جس میں سعودی عرب بھی ہے اسرائیل بھی اور اردن بھی ہو سکتا ہے آگے چل کر تو یہ ایک بڑی اچھی خارجہ پالیسی آگے بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔"
دفاعی امور کی تجزیہ کار ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے خطے کے لیے امریکی عزم کا اعادہ خوش آئند ہے۔
"یہ اس بات کی وضاحت ہے کہ امریکی صدر امریکی ترجیحات کے مطابق بین الاقوامی امور میں دوسری ریاستوں کے مفادات اور تحفظات کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ ان کی کوشش یہی ہے کہ داعش کے خلاف ایک واضح اتحاد قائم ہو سکے جو تمام اسلامی ممالک کی معاونت کے ساتھ چلے نہ کہ اس کے برعکس۔"
ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کو کسی مذہب سے جوڑنے کی بجائے اس کی تمام اشکال سے نمٹنے کے لیے اگر مشرق اور مغرب میں اتفاق ہو جاتا ہے تو یہ بھی عالمی امن کے لیے حوصلہ افزا پیش رفت ہوگی۔