امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو ہانگ کانگ کے ہزاروں شہریوں کو واپس بھیجنے کی بجائے امریکہ میں رہائش کے لیے ڈیڑھ سال تک محفوظ پناہ گاہ دینے کی پیش کش کی ہے، تاکہ انہیں واپس جا کر چین کے زیر انتظام خطے میں جبر کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بائیڈن نے چین کی طرف سے ہانگ کانگ میں گزشتہ ایک سال اور دو ماہ کے دوران جمہوریت کو کچلنے کے اقدامات پر تنقید کی اور کہا کہ بیجنگ کے سخت اقدامات نے مجبور کیا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کے مفادات کے پیش نظر ہانگ کانگ کے باشندوں کو امریکہ میں رہنے اور کام کرنے کی اجازت دی جائے۔
ابھی یہ واضح نہی ہے کہ صدارتی حکم سے کتنے لوگوں کو فائدہ ہوگا، لیکن بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق، اس وقت امریکہ میں رہنے والے ہانگ کانگ کے330,000 باشندے اس سے مستفید ہو کر امریکہ میں رہ سکیں گے۔ البتہ، ان میں وہ لوگ شامل نہیں ہوں گے جو سنگین جرائم کے مرتکب ٹھہرائے گئے ہیں۔
حکم نامہ جاری کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے نوٹ کیا کہ چین نے گزشتہ ایک سال میں مختلف الزامات میں کم از کم ایک سو حکومت مخالف آواز بلند کرنے والے افراد، فعال کارکنان اور سیاستدانوں کو تحویل میں لے رکھا ہے جبکہ اس کے علاوہ 10،000 افراد کو حکومت مخالف احتجاج کرنے کے سلسلے میں دوسرے کئی الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
صدر نے کہا کہ "امریکہ ایک ایسی خارجہ پالیسی پر عمل پیرا رہے گا جو ہماری جمہوری اقدار کو ہمارے خارجہ پالیسی مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ کرے، ایک ایسی پالیسی جس کی بنیاد دنیا بھر میں جمہوریت کا دفاع اور انسانی حقوق کا فروغ ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "ہانگ کانگ کے ان باشندوں کو محفوظ پناہ گاہ مہیا کرنا جنہیں ان کی آزادیوں سے محروم کردیا گیا ہے امریکہ کی خطے میں خارجہ پالیسی کے مفادات کو آگے بڑھاتا ہے۔ امریکہ کبھی بھی ہانگ کانگ کے لوگوں کی حمایت میں کسی تذبذب کا شکار نہیں ہو گا۔"
دریں اثنا وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے کہا ہے کہ امریکہ چین کے قومی سلامتی کے قانون کے استعمال کی بھرپور مخالفت کرتا ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے لوگوں کے بنیادی حقوق اور آزادیاں تلف ہوتی ہیں، یہ ہانگ کانگ کی خود مختاری پر ایک حملہ ہے اور ایسا کرنا ہانگ کانگ میں بچ جانے والے جمہوری عمل اور اداروں کو کمزور کرتا ہے۔
پریس سیکرٹری جین ساکی نے کہا کہ "ایک ایسے ماحول میں جب سیاسی گرفتاریاں اور مقدمے جاری ہیں، میڈیا کو خاموش کرایا جا رہا ہے، ہم ہانگ کانگ کے لوگوں کے حق میں اقدامات کرتے رہیں گے۔"
خیال رہے کہ ہانگ کانگ ایک سابقہ برطانوی نوآبادی رہا ہے اور برطانیہ نے 1997 میں اسے چین کو واپس کر دیا تھا۔
چین نے اختلاف رائے کے خلاف کریک ڈاون جاری رکھا ہوا ہے اور امریکہ نے پچھلے ماہ ہانگ کانگ میں موجود چینی حکام کے خلاف مزید پابندیاں عائد کی تھیں۔
امریکہ نے کاروباری کمپنیوں کو چین کے قومی سلامتی کے قانون کے تحت کام کرنے کے خطرات سے آگاہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ چین نے قومی سلامتی کے قانون کو گزشتہ سال نافذ کیا تھا جس کے تحت غیر ملکی فورسز کے ساتھ ملی بھگت، دہشت گردی، تخریب کاری اور علیحدگی پسندی کو جرائم قرار دے دیا گیا ہے۔