چین نے صدر اوباما کی جانب سے کرنسی اور تجارت کے حوالے سے سخت موقف کےعزم کے بعد امریکہ کے خلاف جوابی اقدامات کیے ہیں۔
واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تازہ ترین اختلاف اس وقت سامنے آیا جب چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ما زہاؤکسو نے جمعرات کے روز یہ کہا کہ چین کی کرنسی کی قدر ایک مناسب سطح پر مقرر کی گئی تھی۔ اور انہوں نے خبردار کیا کہ الزامات اور دباؤ سے مسئلے کے حل میں کوئی مدد نہیں مل سکتی ۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی خسارے کی وجہ کرنسی کی شرح تبادلہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین کو توقع ہے کہ امریکہ تجارت اور کرنسی سے متعلق معاملات کو متوازن اور منصفانہ انداز میں دیکھے گا۔
چین کی جانب سے یہ مختصر ردعمل اس کے ایک دن بعد سامنے آیا جب صدر اوباما نے بیجنگ کے بارے میں سخت رویہ اختیار کرنے اور مزیدچینی مارکیٹوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
امریکی اور بہت سے یورپی کمپنیوں کو ایک طویل عرصے سے یہ شکایت ہے کہ کرنسی سے متعلق بیجنگ کی پالیسیوں سے چینی کمپنیوں کو غیر منصفانہ فائدہ پہنچ رہاہے۔
بہت سے تجارتی اور اقتصادی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں چینی مصنوعات کو سستا بنانے کے لیے یوان کی شرح تبادلہ مصنوعی طورپرایک کم سطح پر مقرر کی گئی ہے۔
لیکن بیجنگ اپنی کرنسی کی شرح کے دوبارہ تعین کی اپیلوں کومسترد کرتا ہے۔
تازہ مسئلہ دونوں معاشی قوتوں کے درمیان اختلافات کی بڑھتی ہوئی فہرست ہے۔
حالیہ ہفتوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تناؤ کا شکار ہیں ، جس کا ابتدا امریکی ویب سائٹس، بشمول گوگل پر سائبر حملوں کےدعوے سے ہوئی تھی۔
دونوں ملکوں کے درمیان مزید کشیدگی کی وجہ صدر اوباما کے تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ سے ملنے کا منصوبہ اور تائیوان کو واشنگٹن کی جانب سے ہتھیاروں کی فروخت کا معاہدہ ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نےتائیوان کو ہتھیار فراہم کرنے والی امریکی کمپنیوں کے خلاف پابندیاں لگانے کا اعادہ کیا ۔
چین کے بارے میں توقع ہے کہ وہ اس سال دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ چینی مارکٹیوں سے امریکہ کو دور رکھنا ایک غلطی ہوگی۔