بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے باوجود تشدد کے واقعات جاری ہیں۔ امریکہ نے بھی خواتین کی برہنہ ویڈیوز اور پرتشدد واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
منی پور کے ضلع چورا چاندپور میں مشتبہ شدت پسند گروپس اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہفتے کی شام کو شروع ہونے والی جھڑپ پیر کی صبح تک جاری رہی۔
رپورٹس کے مطابق جھڑپ کے دوران ایک خاتون زخمی ہوئی اور ایک اسکول اور 10 خالی مکانات نذر آتش کر دیے گئے۔
تین مئی سے جاری تشدد کے نتیجے میں منی پور میں میتی اور کوکی برادری کے درمیان جاری جھڑپوں میں 160 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
فسادات کے باعث تقریباً 60 ہزار افراد بے گھر ہو گئے ہیں جنہیں 350 پناہ گزیں کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔
منی پور بھارت کی میانمار کے ساتھ سرحد پر واقع ریاست ہے۔ یہاں نسلی بنیادوں پر تقسیم دو درجن سے زائد قبیلے آباد ہیں۔ لیکن بڑے قبائل میتی اور کوکی ہیں۔
منی پور میں فسادات بھی ان دو قبائل کے درمیان ہی ہو رہے ہیں۔
کوکی قبیلے کو مقامی قبائل کا درجہ حاصل ہے جس کی وجہ سے ان کا سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں کے لیے کوٹہ مختص ہے۔
میتی کو مقامی قبائل کا درجہ حاصل نہیں اور وہ اس کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ان کی آبائی زمین، ثقافت اور شناخت کو قانونی تحفظ ملے۔
منی پور میں مئی کے آغاز میں اسی معاملے پر کوکی قبائل کے احتجاج سے پوری ریاست میں پرتشدد تصادم پھوٹ پڑا تھا۔
اب کیا صورتِ حال ہے؟
پولیس کے مطابق ہفتے کی شام چورا چاندپور میں سیکیورٹی فورسز پر کئی راؤنڈ فائر کیے گئے اور دیسی ساخت کے بم پھینکے گئے۔ تشدد پر قابو پانے کے لیے سیکیورٹی فورسز، فوج اور پولیس اہل کاروں سمیت کم از کم 40 ہزار جوان منی پور میں تعینات ہیں۔
گزشتہ دنوں دو قبائلی خواتین کی برہنہ پریڈ کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد چورا چاندپور ضلع میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
مبینہ طور پر ان میں سے ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی تھی۔ اس واقع پر ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا ہے۔
دریں اثنا کوکی برادری سے تعلق رکھنے والی مختلف تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ تین مئی کو بھڑکے تشدد کے بعد سات کوکی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے۔
اُن کا دعویٰ ہے کہ 27 متاثرہ خواتین میں سے سات کے ساتھ ریپ کیا گیا، آٹھ کو لوہے کے پائپوں اور ڈنڈوں سے تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا۔ دو کو جلا کر جب کہ پانچ کو گولی مار کر موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ نے ان دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے ریپ کے ایک واقعے کا اعتراف کیا ہے۔ ان کا اشارہ برہنہ پریڈ کرائی جانے والی خواتین میں سے ایک کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کی طرف تھا۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے پورا ملک شرمسار ہوا ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے حکومت سے کہا کہ وہ تشدد روکنے کے اقدامات کرے ورنہ عدالت کو مداخلت کرنا پڑے گی۔
اس واردات کے سلسلے میں پولیس اب تک چھ افراد کو گرفتار کر چکی ہے۔ یاد رہے کہ یہ ویڈیو چار مئی کی بتائی جا رہی ہے۔ منی پور میں تین مئی کو تشدد شروع ہوا تھا۔
امریکہ کا اظہارِ تشویش
امریکہ نے بھی منی پور میں پیش آنے والے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے اس واقعے کو سفاکانہ اور خوفناک قرار دیا اور متاثرین سے اظہار ہمدردی کیا ہے۔
ترجمان نے تنازع کے پر امن حل پر زور دیا اور انتظامیہ سے تمام گروپوں، مکانوں اور عبادت گاہوں کے تحفظ کی اپیل کی۔
قبل ازیں بھارت میں امریکہ کے سفیر ایرک گارسیٹی نے ایک نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ اگر کہا جائے تو امریکہ اس مسئلے کے حل میں مدد دینے کو تیار ہے۔
اُنہوں نے منی پور تشدد کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سنگین معاملہ قرار دیا تھا۔
اس سے قبل یورپی پارلیمنٹ نے اس نسلی تشدد کے خلاف قرارداد منظور کی تھی اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں کے بیانات کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔
بھارتی وزارتِ خارجہ نے اسے بھارت کے اندرونی امور میں مداخلت قرار دیا اور اسے ناقابلِ قبول بتایا تھا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا کہ حکومت و انتظامیہ کی جانب سے منی پور میں امن و امان کو یقینی بنانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
منی پور میں خوف و ہراس
منی پور میں زیادتی اور برہنہ پریڈ کی ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد میزورم میں آباد میتی برادری میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔
سابق انڈر گراؤنڈ میزو نیشنل فرنٹ کے عسکریت پسندوں کی تنظیم نے 21 جولائی کو ایک بیان میں کہا کہ میزورم میں رہائش پذیر میتی برادری کے لوگ اپنے تحفظ کی خاطر وہاں سے نکل جائیں۔
اس کے بعد منی پور کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ میتی برادری کے لوگوں کو میزورم سے نکالنے کے لیے طیارے بھیجنے جا رہی ہے۔ تاہم میزورم کی وزارتِ داخلہ نے میتی برادری کے لوگوں کو یقینی دلایا ہے کہ ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
سول سوسائٹی کی تنظیموں کا صدر کے نام خط
سول سوسائٹی کی تنظیموں، سماجی انجمنوں اور انفرادی شخصیات پر مشتمل تنظیم ’نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹ‘ (این اے پی ایم) نے اتوار کو صدر دروپدی مورمو کے نام ایک خط لکھا ہے۔
اس خط پر سماجی کارکن میدھا پاٹیکر، سابق آئی اے ایس اور انسانی حقوق کے سینئر کارکن ہرش مندر اور شاعرہ مینا کنڈا سوامی سمیت تین ہزار سے زائد افراد نے دستخط کیے ہیں۔
انسانی حقوق کے ایک سینئر کارکن ڈاکٹر رام پنیانی کے مطابق اگر حکومت چاہے تو فوری طور پر تشدد بند ہو سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ منی پور کی اکثریتی برادری کو جو کہ ہندوؤں کے ویشنو مت سے تعلق رکھتی ہے، حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ ریاست میں میتی برادری کو بالادستی حاصل رہے۔
ان کے مطابق میتی برادری کے لوگ قبائلیوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت ان کی مدد کر رہی ہے کیوں کہ وہ قبائلیوں کی زمینیں کارپوریٹ سیکٹر کو دینا چاہتی ہے۔
انہوں نے منی پور کی صورت حال کو انتہائی بھیانک قرار دیا اور فوری طور پر قیام امن کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ کو فوراً استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
معروف دانشو اور گاندھیائی مصنف ڈاکٹر انل دت مشرا کا کہنا ہے کہ منی پور میں ہونے والے تشدد کی وجہ سے پوری دنیا میں بھارت کی بدنامی ہو رہی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو کوئی پروا نہیں ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ منی پور میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات نے سول سوسائٹی کو مجبور کیا کہ وہ صدر سے مداخلت کرنے کی اپیل کرے۔ انہوں نے حکومت کے رویے کو افسوس ناک قرار دیا۔
دریں اثنا حزبِ اختلاف کی جانب سے منی پور کے معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث کرانے اور وزیرِ اعظم کی جانب سے ایوان میں بیان دینے کے مطالبے پر ہنگامہ جاری ہے جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں تعطل برقرار ہے۔
اپوزیشن ارکان نے اس مطالبے کے ساتھ ایوان کے باہر احتجاج بھی کیا۔ جب کہ عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا کے رکن سنجے سنگھ کو ایوان کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ نے پارلیمنٹ کے پورے اجلاس کے لیے معطل کر دیا۔
وہ منی پور معاملے پر نعرہ لگاتے ہوئے ایوان کے وسط میں آگئے تھے اور چیئرمین کی ہدایت کے باوجود واپس جانے کو تیار نہیں تھے۔ اس پر عام آدمی پارٹی نے سخت ردِعمل میں کہا ہے کہ حکومت سنجے سنگھ کو بھی جیل میں ڈالنا چاہتی ہے۔
حکومت کی جانب سے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے کہا کہ حکومت ایوان میں بحث کرانے کے لیے تیار ہے۔ لیکن اپوزیشن ارکان تعاون نہیں کر رہے ہیں۔ قبل ازیں پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے کہا کہ ہم ایوان میں بحث کرانے کے لیے تیار ہیں لیکن اپوزیشن ارکان بھاگ رہے ہیں۔