"رات کے وقت گھپ اندھیرا ہوجائے تو میں تین چار عورتوں کے ساتھ یہاں رفع حاجت کے لیے نکلتی ہوں اور اگر کسی اور کے قدموں کی آہٹ سنائی دے یا کوئی گاڑی آ رہی ہو تو ہم ڈر کے مارے جلدی سے گھر دوڑ جاتے ہیں کہ کہیں کوئی ہم پر حملہ نہ کردے۔"
یہ کہنا ہے شبانہ بلوچ کا جو صوبہ سندھ کے ضلع داو کی تحصیل جوہی کے ایک گاؤں محبت خان کی رہائشی ہیں۔
یہ بات سن کر شاید کسی کو بھی یقین نہ آئے جیسے مجھے بھی یہ سمجھنے میں بہت دیر لگی کہ جو کہا گیا ہے وہ حقیقت ہے یا میں نے غلط سنا ہے۔ جھلستی گرمی جس میں لوگ سائے کی تلاش میں ہوں، ہم کہانیوں کے تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ میں اندرونِ سندھ گئی ہوں، مجھے لوگوں سے ملنا اور ان کی کہانیاں سننا ہمیشہ سے ہی پسند ہے لیکن بحیثیت خاتون رپورٹر میرے لیے اندرون سندھ کے سفر کا سب سے بڑا چیلنج ایک بہتر، صاف اور محفوظ ٹوائلٹ کی تلاش رہی ہے۔
کئی گھنٹوں کے سفر میں آپ کو کھانے پینے کے بے شمار دھابے یا ہوٹل تو مل جاتے ہیں لیکن صاف باتھ روم ملنا تقریباً ناممکن ہی ہوتا ہے۔ ایک ایسے ہی سفر کے دوران رات میں مجھے واش روم جانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ میرے کیمرہ مین نے ایک جگہ گاڑی رکوائی اور ایک ہوٹل جاکر معلوم کیا کہ وہاں کسی واش روم کی سہولت ہے یا نہیں۔
جب میں اندر گئی تو اس واش روم میں گندا فرش، مکڑیوں کے جالے اور کئی چھپکلیاں دیکھ کر میں پیچھے ہٹ گئی۔ اسی کے ساتھ دوسرا واش روم بھی اسی حالت میں تھا لیکن اس کے دروازے کی کنڈی نہیں تھی۔گھبراہٹ کے مارے باہر نکل کر میں نے ایک لڑکے سے پوچھا کہ عورتوں کے لیے کیا صرف یہی واش روم ہے؟ اس نے کہا ہاں یہی ہے کیوں کیا ہو گیا؟ میں نے کہا اس کا دروازہ ٹوٹا ہوا ہے کنڈی بھی نہیں ہے تو ہنس کرجواب آیا یہاں کس نے آنا ہے آپ چلی جاؤ کوئی نہیں آتا۔
میں بحث کیے بغیر وہاں سے نکل گئی اور پھر ایک گھنٹے بعد ایک اور چائے کے ہوٹل پہنچی جہاں کے واش روم میں پانی نہیں تھا لیکن دروازے کی کنڈی تھی۔ مجھے استعمال کے لیے پینے کا پانی ساتھ لے جانا پڑا۔ جب گاڑی میں بیٹھی تو سوچا کہ واہ سدرہ بی بی مجبوری بھی کیا شے ہے جب ضرورت ہو تو صٖفائی طہارت کے بنائے گئے اسٹینڈرڈز کو خود ہی کمپرو مائز کرنا پڑتا ہے۔
شاید اب ایسے سفر میں، میں اس چیز کی عادی ہوگئی ہوں اور محتاط بھی کہ رپورٹنگ چاہے صبح سے شام ہو لیکن کھائے بنا کام کرو اور پانی بھی اتنا کم پیو کہ واش روم جانے کی ضرورت انتہائی کم رہے لیکن سچ پوچھیں تو یہ اتنا آسان نہیں۔
اس بار جب میں رپورٹنگ کے لیے جوہی کے ایک گاؤں پہنچی تو وہاں داخل ہوتے ہی مجھے اپنے استقبال کے لیے کچھ ہنستی مسکراتی لڑکیاں ملیں۔ گرمی سے میرا برا حال دیکھ کر ان میں سے ایک لڑکی مجھے ہینڈ پمپ کی طرف لے گئی اورکہا کہ باجی آپ پہلے ہاتھ منہ دھو لو اور سر پر بھی پانی ڈالو گرمی بہت ہے۔
یہ گاؤں میری سوچ سے کہیں زیادہ منظم اور صاف ستھرا نظر آرہا تھا۔ گھر وہی روایتی انداز کے تھے لیکن دیکھ کر محسوس ہوا کہ ابھی بنے ہیں۔ میرے ساتھ جانے والی لڑکی نے بتایا کہ یہ سب گھر تباہ ہوگئے تھے گاؤں والوں نے پھر سے انہیں بنایا ہے۔
جس گھر میں ہم داخل ہوئے وہاں پہلے سے ہی 25، 30 خواتین ہماری منتظر تھیں۔ ایک لڑکی اسٹیل کے گلاس میں ٹھنڈا پانی لے کر آئی لیکن پانی کے معاملے میں ہم شہری شاید زیادہ حساس ہوتے ہیں تو میں نے اسے اپنے منرل واٹر کی بوتل دکھا کر شکریہ ادا کردیا۔
ہم جس لڑکی کی پروفائل اسٹوری شوٹ کر رہے تھے وہ خواتین سے خاصی مانوس تھی، وہ ان خواتین کو ہائی جین کے طریقے بتانے کے لیے سیلاب کے دنوں سے وہاں جا رہی تھی۔ میری موجودگی ان کے لیے نئی بات تو تھی لیکن میں نے انہیں اپنے ساتھ محتاط پا کر گپ شپ کا آغاز کیا۔
مہمان نوازی ان پر ختم تھی کوئی کہتا یہاں بجلی نہیں سولر چلتا ہے تم پنکھے کے نیچے بیٹھو، کوئی خاتون چارپائی پر بیٹھنے کو اصرار کرتی تو کوئی کمر سیدھی کرنے کے لیے تکیہ لیے کھڑی تھیں۔ کچھ دیر بعد میں انہیں اپنی لگنے لگی۔ میں نے ان سے اردو میں بات کرنے کو کہا تو گل بی بی نے کہا کہ انہیں اردو سے ڈر لگتا ہے۔ کیا اردو کوئی غیر مرد یا بھوت ہے جو آپ کو ڈر لگتا ہے؟ میرے جواب پر وہاں قہقہے گونجنے لگے۔
بعدازاں ان عورتوں نے کیمرے پر دھیان نہ دیا اور جس لڑکی پر شوٹ تھا اس میں وہ ایسا مصروف ہوئیں کہ مجھے کچھ بتانا نہ پڑا۔ شوٹ کے اختتام پر میں نے گل بی بی سے کچھ سوالات کیے کہ سیلاب کے دوران انہیں کیا مشکلات ہوئیں اور اب کیا حالات ہیں۔ اپنی مشکلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گھر تو بن گئے ہیں ہم نے خود بنا لیے، وہ وقت بھی کٹ گیا لیکن ہمیں کسی نے ٹائلٹ نہیں بنا کر دیا اور نہ ہی صاف پانی فراہم کیا۔
یہ میرے لیے ایک عام شکایت تھی کیوں کہ میں ایسی بے شمار شکایات سنتی آ رہی تھی۔ لیکن گل بی بی بضد تھیں کہ ان کی اس شکایت کا حل نکالا جائے۔
اتنے میں انہوں نے کہا کہ تم سے یہ لڑکی بات کرے گی اسے اردو اچھی آتی ہے یہ ہمارے گاؤں کی پڑھی لکھی لڑکی ہے۔ اب تمہیں خدا نے یہاں کا راستہ دکھایا ہی ہے تو ہمارا درد سن کر ہی جانا۔
"سیلاب آیا تھا تو ہمارا گاؤں پانی سے بھرا ہوا تھا ہم عورتیں بہت پریشان تھیں کہ ہمیں رفع حاجت کے لیے جانا ہے تو کہاں جائیں جہاں ہم جاتے تھے وہاں بھی کمر تک پانی تھا۔ ہم عورتیں ٹولیوں کی صورت میں اس پانی سے گزر کر جاتیں جہاں ذرا پانی کم نظر آیا تو کوئی کونا ڈھونڈ کر وہاں اپنی ضرورت پوری کر کے لوٹتی تھیں۔ ان دنوں میں اگر کسی کو ماہواری ہو تو اور اذیت، گھر میں جوان بچیوں کا ساتھ تھا ہمارے لیے سیلاب کی تباہی کا دکھ تو تھا ہی لیکن جو تکلیف ہم نے اس مرحلے کے لیے اٹھائی وہ ہم بتا بھی نہیں سکتے۔" شبانہ بنا رکے بتائے جا رہی تھی کہ میں نے اسے روک کر سوال کیا۔ سیلاب کی وجہ سے ٹوائلٹس ٹوٹ گئے تو کیا دوبارہ بنے نہیں؟
"باجی اس گاؤں میں ٹوائلٹس ہیں ہی نہیں۔ میں پیدا یہی ہوئی آج 30 سال کی ہو گئی ہوں۔ میں نے یہاں ٹوائلٹس نہیں دیکھے۔ ہمارے گھروں سے دور ایک جگہ ہے اسے ہم 'واڑہ' کہتے ہیں اس کی چہار دیواری ہم نے لکڑیوں اور جھاڑیوں سے بنائی ہے۔ ہم عورتیں وہاں جاتی ہیں۔" یہ وہ لمحہ تھا جب مجھے لگا کہ جو میں سن رہی ہو ں وہ حقیقت نہیں ہے۔ میں نے خود کو یقین دلانے کے لیے شبانہ کو پھر روکا اور گل بی بی سے کہا یہ کہہ رہی ہے کہ گاؤں میں کوئی بیت الخلاء نہیں ہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟
ایک ساتھ تمام عورتوں نے مل کر کہا کہ یہ صحیح کہہ رہی ہے۔یہ سن کر ابھی میرے اوسان بحال ہوئے بھی نہ تھے کہ ایک بوڑھی خاتون جن کی عمر 80 سال کے لگ بھگ ہو گی، انہوں نے سندھی زبان میں مجھ سے کہا۔ بیٹی تو شہر سے اتنے دور آئی ہے۔ کام کے واسطے، پڑھی لکھی ہے۔ لوگوں کی کہانیا ں سنتی ہے سناتی ہے۔ تیری آواز تو سرکار بھی سنتی ہو گی۔ انہیں کہہ کہ ہمیں لیٹرین بنا دے۔ ہمارے مردوں کو سمجھا دے کہ عورت ہونا کتنا مشکل ہے وہ نہیں سمجھتے۔
اب اس گھر میں کچہری لگ چکی تھی۔ سب عورتیں یہی مطالبہ لیے بیٹھی تھیں کہ اسی گھر کی ایک عورت نے مجھے کان میں سرگوشی کر کے کہا کہ تم اندر کمرے میں آ سکتی ہو کیا؟ میری ساس کو تم سے بات کرنی ہے۔ میں اندر گئی تو وہاں بھی ایک بوڑھی عورت بیٹھی تھی جس کے ہاتھ میں سہارے کے لیے لاٹھی تھی۔
اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا بیٹی تو شہر جائے تو ہمارے لیے کچھ کرنا ضرور۔ ہمیں راشن، کپڑا، پیسہ نہیں چاہیے، ہمیں بس لیٹرین چاہیے۔ میں نے اپنا وقت کاٹ لیا، میری بیٹیوں، بہوؤں نے بھی گزار لیا پر یہ جو میری پوتیاں ہیں ناں یہ اب پڑھ لکھ رہی ہیں۔ روز لڑتی ہیں کھانا نہیں کھاتیں کہتی ہیں کہ لیٹرین بنوا دو ورنہ ہم نہیں رہیں گے۔ میرا دل کٹتا ہے اندر سے، ڈرتا ہے جوان بچیاں ہیں کیا مانگتی ہیں۔ بچیاں تو اچھا کپڑا، ہار سنگھار مانگتی ہیں ان کو بس لیٹرین چاہیے۔
جب میں مائی کا دکھڑا سن رہی تھی تب مجھے محسوس ہوا کہ کمرے کے باہر صحن سے دو آنکھیں مجھے گھور رہی ہیں۔ یہ ایک نو عمر لڑکی تھی جو بر آمدے کے پلر کے پیچھے کھڑی تھی۔
اس گھر کی بہو فاطمہ نے مجھ سے کہا کہ آپ کو پتہ ہے ہم عورتوں کو نہانا ہو تو ہم کس اذیت سے نہاتے ہیں؟ عورت کا ایک پردہ ہے وہ مرد کی طرح ہینڈ پمپ کے نیچے کھلے آسمان تلے تو بیٹھ کر نہیں نہا سکتی۔ ہم ایک بالٹی پانی بھر کر لاتے ہیں، دوسری خالی رکھتے ہیں، کپڑے دھونے والے تسلے میں بیٹھ کر ہم خود پر پانی ڈالتے ہیں اور پھر وہ نہایا ہوا پانی خالی بالٹی میں ڈالتے جاتے ہیں کہ کمرے کے فرش پر پانی نہ گرے۔ ہمارا نہایا ہوا میلا پانی گھر کے صحن میں پھینکنے کی اجازت نہیں تو ہم وہ پانی باہر جاکر پھینکتے ہیں۔
ہماری بچیاں ایسے ہی تو غصے میں نہیں ہیں ناں؟ چارپائی کے نیچے ایک لال بالٹی اور کپڑے دھونے والا برتن پڑا ہوا تھا اور میں سوچ رہی تھی کہ کیوں اتنی تکلیف اور اذیت ان عورتوں کا مقدر ہے؟
کمرے میں سولر سے چلنے والا پنکھا دیکھ کر میں نے اماں سے ہمت کر کے سوال کر ڈالا۔ اماں بجلی نہیں ہے تو سولر لگایا ہے یہ کام مردوں نے ہی کیا ہوگا آپ نے کبھی بیٹوں کو سمجھایا نہیں کہ عورتوں کو بیت الخلاء چاہیے یہ عیاشی نہیں ضرورت ہے۔
ان کی بہو نے جب میری بات انہیں سندھی میں بتائی تو انہوں نے پہلے اپنا سر پیٹا پھر دونوں ہاتھوں سے میرا چہرہ پیار سے پکڑ کر کہا کہ دھی رانی میرے جو بیٹے ہیں وہ اسی باپ کی اولاد ہیں جس نے عورت کی اس مجبوری کو نہیں سمجھا۔ انہیں لگتا ہے کہ کھا پی کر جسم سے نکال دینا ایک کام ہے، یہ ایک گند ہے جو گھر میں نہ ہو کہیں دور ہو تو اس چند لمحے کے کام پر جس میں صرف گند ہی ہے کیوں پیسہ لگے۔
مجھے لگا جیسے میرا جسم اندر سے کانپ رہا ہے اور میں کسی بھی وقت گر سکتی ہوں کہ اچانک میرے سامنے وہ بچی مسکراتے چہرے کے ساتھ آ گئی جو پہلے ٹھنڈا پانی لائی تھی۔ باجی میں لیمو پانی لائی ہوں یہ پی لو اور میں ایک گھونٹ میں وہ گلاس خالی کر گئی اس وقت بیگ میں رکھی منرل واٹر کی بوتل مجھے ایک عیاشی لگ رہی تھی۔
میرا ذہن کام نہیں کر رہا تھا شاید میں خود کو یقین نہیں دلا پا رہی تھی کہ میں نے شبانہ سے ایسی بات کہی جس پر تمام خواتین کے چہرے اتر گئے۔ اگر مجھے ابھی اسی وقت ٹوائلٹ جانے کی ضرورت پیش آجائے تو میں کہاں جاؤں؟
پلر کے پیچھے کھڑی بچی نے قدرے غصے میں شبانہ کو کہا انہیں وہیں لے جاؤ جہاں ہم سب جاتے ہیں انہیں بھی تو پتہ چلے کہ ہمارا رونا کیا ہے؟ مجھے اب اس گاؤں سے باہر جانا تھا تو سب سے یہیں رخصت لی۔ تمام عورتیں مجھ سے ہاتھ ملاتی جاتیں اور کہتیں ہوسکے تو ہمارے لیے کچھ کرنا ہم بہت دعائیں دیں گے۔
شبانہ کے ساتھ چلتے ہوئے ہم وہاں پہنچے جہاں سے اس گاؤں کے گھر شروع ہوتے ہیں۔ یہاں مسجد پر رنگ و روغن ہو رہا تھا جہاں کچھ دیر قبل نماز جمعہ کی ادائیگی ہوئی تھی۔شبانہ آگے چل رہی تھی اور ایک ایسی جگہ داخل ہوئی جہاں چاروں طرف جھاڑیوں کی باڑھ تھی میں اس کے ساتھ اندر چلی گئی۔
یہ ہے ہمارا ٹوائلٹ یہاں ہم عورتیں آتی ہیں۔ آپ بھی عورت ہیں۔ اگر آپ کو ضرورت ہو تو کیا یہاں آ سکتی ہیں؟ ہمیں ڈر لگتا ہے ہماری کوئی پرائیویسی نہیں، ہماری کوئی عزت نہیں۔ مرد نہیں سنتے نہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کیوں ٹوائلٹ چاہیے۔ یہ ایک غسل خانہ پیسے جوڑ جوڑ کر ہم عورتوں نے ایک ماہ پہلے بنایا ہے ہم گھر کے کمروں میں کیسے نہائیں؟ اس پر بھی ہم نے بہت کچھ سنا۔ آپ نے کہا کہ ماہواری میں پانی کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔ پیشاب زیادہ روکو تو مثانے کو نقصان پہنچ سکتا ہے، وجائنل انفیکشن ہوسکتے ہیں۔ کیا مرد یہ کبھی سمجھ سکیں گے؟ انہیں تو جہاں جگہ ملے چلے جائیں گے ہم عورتیں کہاں جائیں؟ کون اس درد اور تکلیف کو سمجھے گا؟ یہ جو جھاڑیوں پر کپڑے کے ٹکڑے سوکھ رہے ہیں یہ ہم ماہواری میں استعمال کرتے ہیں پھر یہیں سوکھنے ڈالتے ہیں۔ یہاں کی نجاست، جراثیم پھر خود میں ڈال لیتے ہیں کس کس دکھ کو بیان کریں؟
شبانہ بولے جارہی تھی اور میں سر جھکا کرسنے جا رہی تھی۔ نہ رو سکتی تھی نہ اسے دلاسہ دے سکتی تھی۔اس جگہ پر کھڑے ہوئے مجھے اکشے کمار کی ہندی فلم 'ٹوائلٹ ایک پریم کتھا' یاد آ گئی جسے دیکھ کر میں نے سوچا تھا کہ یہ محض ایک فلم ہے۔ جس میں بڑھا چڑھا کر بھی بیان کیا جاتا ہے لیکن آج میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ گھر بن گئے، بچے اسکول جانے لگے، یہاں تک کہ شبانہ نے اکنامکس میں ایم اے بھی کرلیا لیکن گاؤں میں عورتوں کے لیے بیت الخلاء نہیں بن پا رہا۔ کیا یہ معاشرتی مسئلہ ہے یا اس کے پیچھے کوئی ایسی پختہ سوچ ہے جس پر اس گاؤں کے مرد کچھ سننے کو تیار نہیں۔ ان سوالات کے ساتھ میں واپسی کے سفر پر نکل پڑی۔
رات گئے جب میں گھر میں داخل ہوئی تو سب سے پہلے میں واش روم گئی آج پہلی بار میں نے اس واش روم کو بغور دیکھا اوراس میں موجود ہر سہولت کا جائزہ لیا۔ شاور کے نیچے کھڑے ہوتے وقت بند آنکھوں سے تصور کیا کہ کیسے کوئی عورت اس تسلے میں بیٹھ کر اس فکر میں نہا سکتی ہیں کہ استعمال شدہ پانی فرش پر نہ گر جائے۔ میرے سر پر گرنے والا پانی میرے اندر بھری گھٹن کو بھی کم نہ کرسکا ۔ میں اب رو رہی تھی اور اس بات پر کڑھ رہی تھی کہ اس لمحے جب میں دروازے کو کنڈی لگائے واش روم میں بلا خوف کے نہا رہی ہوں تو رات کے اسی پہر محبت خان گوٹھ میں کوئی عورت اس ویران تعفن زدہ جگہ پر رفع حاجت کے لیے خوف کی چادر اوڑھے بیٹھی ہو گی اور ان جھاڑیوں کے باہر دوسری عورتیں اس کا پہرہ دے رہی ہوں گی۔ 21 ویں صدی کے اس دور میں ایسا ہو رہا ہے۔ میرے ساتھ اب آپ کو بھی اس پر یقین کرنا ہو گا۔