امریکی سینیٹ نے ایک قرارداد نامنظور کر دی جس میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت روکنے کے لیے کہا گیا تھا۔ قراداد مسترد کیے جانے سے قبل ایوان میں کئی گھنٹون تک متنازع بحث جاری رہا، جس میں سعودی عرب کے خلاف سخت نکتہ چینی کی گئی، اس مباحثے سے قانون سازوں کے درمیان امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں اس کے طویل مدتی اتحادی کے خلاف اختلاف رائے سامنے آیا۔
بدھ کو جب اس قرارداد پر ووٹ پڑے تو یہ قرار داد 71 کے مقابلے میں 27 ووٹوں سے مسترد ہوئی۔ تاہم، 1.15 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی فروخت یقینی ہوگئی، جس میں ’ابراہم ٹینکس‘ اور دیگر آلات شامل ہیں، جن پر کانگریس کی مداخلت کے بغیر عمل درآمد ہوگا۔
ایوان کے دونوں جانب کے سینیٹروں کے ایک گروپ نے اس لین دین کی مخالفت کی، جس میں سعودی عرب کے ہمسائے یمن اور بادشاہت کی طرف سے اسلام کے بنیاد پرست شکل کی پشت پناہی کی مثالیں دی گئیں۔
کنیٹی کٹ سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ، کرس مرفی نے کہا ہے کہ امریکی حمایت سے سعودی عرب نےحوثی باغیوں کے خلاف یمن کی شہری آبادی پر بم باری جاری رکھی ہے۔
مرفی نے کہا کہ ’’ہم نے اُن سے کہا کہ وہ شہری آبادی پر بم حملے بند کریں۔ لیکن، اِسی موسم گرما کے اوائل میں 72 گھنٹوں کے اندر سعودی عرب کی زیر قیادت اتحاد نے ’ڈاکٹرز وداؤٹ بارڈر‘ تنصیب اور ایک اسکول پر ایک بار پھر بمباری کی‘‘۔
ری پبلیکن پارٹی کے کنٹکی کے سینیٹر، رینڈ پال نے کہا کہ ’’یہ (قرارداد) اس متعلق ہے آیا ہم یمن کی جنگ کا حصہ بنیں گے؟ بتایا جاتا ہے کہ سعودی بم حملوں میں یمن میں 3000 بے گناہ افراد ہلاک ہوئے ہیں‘‘۔
پال نے مزید کہا کہ ’’جب یمن میں شادی کی ایک تقریب میں 100 افراد ہلاک ہوتے ہیں، آپ کے خیال میں اُن خاندانوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اُن کے دِل میں سعودی عرب اور امریکہ کے لیے کوئی خوشگوار احساسات ہوں گے؟‘‘
قرارداد کے مخالفین کا کہنا تھا کہ یہ اقدام گمراہ کُن ہے۔
کنٹکی کے ری پبلیکن نمائندے اور قائدِ ایوان، مچ مکونیل نے کہا کہ ’’سعودی عرب کو ہم عشروں سے بَری فوج کے حربی آلات بیچتے آئے ہیں۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں، بالکل نہیں کہ سعودیوں نے یمن کے اندر زمینی لڑائی کے دوران ابراہم ٹینک کا استعمال کیا ہو۔ یہ حربی نظام سعودی سرحد کے اندر حوثی دراندازی کے دفاع کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں‘‘۔
دوسرے ری پبلیکن، اریزونا کے جان مکین نے جغرافیائی اور حکمتِ عملی کی نوعیت کا سوال اٹھایا۔
مکین نے کہا کہ ’’ہمیں بالکل واضح ہونا چاہیئے کہ ہتھیاروں کی یہ فروخت کس لیے ہے۔ یہ وہ ملک ہے جسے ایران کی پشت پناہی والی ملیشیا سے نمٹنا ہے، تاکہ وہ اپنے عوام اور اپنی علاقائی سالمیت کا دفاع کرسکے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ٹینکوں کی فروخت کو روکنے سے نہ صرف سعودی عرب بلکہ خلیج کے ہمارے شراکت دار یہ سمجھیں گے کہ یہ اس جانب ایک اور اشارہ کہ متحدہ ریاست ہائے امریکہ خطے میں ہمارا ساتھ چھوڑ رہا ہے‘‘۔