امریکہ نے افغانستان میں داعش کے دھڑے کے خلاف اقدام کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد گروہ کے چوٹی کے اہلکاروں اور مبینہ طور پر مالی معاونت فراہم کرنے والوں پر پابندی عائد کرنا ہے، جن پر الزام ہے کہ وہ بیرونی جنگجوؤں کو ساتھ ملا کر اس دہشت گرد گروپ کی تعداد میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے پیر کے دن داعش خراسان کے سینئر لیڈروں ثنااللہ غفاری، سلطان عزیز اعظم اور مولوی رجب کو خصوصی عالمی دہشت گرد نامزد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
نامزدگی کے اس اعلان کے بعد یہ راہ ہموار ہوگئی ہے کہ اِن دہشت گردوں اور اُن کے ساتھیوں کا امریکی مالیاتی نظام کے ساتھ رابطہ بلاک کر دیا گیا ہے، جس سے رقوم اور اثاثوں تک اُن کی رسائی ختم ہو جائے گی۔
ثنا اللہ غفاری نے، جنھیں ثنا اللہ یا شہاب المہاجر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جون 2020ء سے داعش خراسان کی قیادت سنبھال رکھی ہے، جب افغان حکومت کی افواج نے ان کے پیش رو لیڈروں کو پکڑ لیا تھا۔
اسی سال اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے حکام کو دی گئی انٹیلی جنس کی معلومات سے پتا چلتا ہے کہ غفاری کابل کے علاقے میں کارروائیوں پر مامور تھا، جہاں اس گروپ نے 'سلیپر سیلز' کا ایک ٹھوس نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا۔
مزید برآں، امریکی محکمہ خزانہ نے پیر ہی کے روز عصمت اللہ خولازئی پر پابندی لگانے کا بھی اعلان کیا ہے، جنھیں داعش کے افغان دھڑے کو، جسے دولت اسلامیہ خراسان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، مالی معاونت اور سہولت کاری فراہم کرنے والا اہم ترین فرد قرار دیا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ کے اعلان کے مطابق، خولازئی نے داعش کی سینئر قیادت کی طرف سے کارروائیاں کی ہیں۔ اعلان میں کہا گیا ہے کہ وہ غیر ملکی جنگجوؤں کی نقل و حمل میں سہولت کار کا کردار ادا کرتا آیا ہے اور أفغانستان اور خطے میں کشیدگی اور تناؤ بڑھانے میں مدد دیتا رہا ہے۔
محکمہ خزانہ کے حکام نے مزید کہا ہے کہ خولازئی حالیہ دنوں تک ترکی سے رقوم کی منتقلی کی اسکیم چلایا کرتا تھا، جس سے پیشتر وہ متحدہ عرب امارات سے اسی نوعیت کا کام کرتا رہا ہے، جہاں وہ اشیائے تعیش کی فروخت کے ذریعے داعش خراسان کے لیے رقوم اکٹھی کیا کرتا تھا۔
حالانکہ، سال 2020ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران امریکہ اور طالبان کی جانب سے دباؤ کے نتیجے میں انھیں اس محفوظ علاقائی ٹھکانے سے نکال باہر کیا گیا تھا، داعش خراسان پھر سے وہاں لوٹ آئی ہے، جہاں گزشتہ اگست سے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد داعش خراسان کی تعداد میں خاصا اضافہ آیا ہے۔
گزشتہ ہفتے افغانستان میں اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے انتباہ جاری کیا تھا کہ یوں لگتا ہے کہ داعش خراسان ''تقریباً تمام صوبوں میں موجود اور سرگرم عمل ہے''۔
اسی طرح سے، امریکہ کے چوٹی کے دفاعی اور انٹیلی جنس حکام نے بھی متنبہ کیا ہے کہ آئندہ چھ ماہ کے اندر اندر یہ دہشت گرد گروپ پھر سے نہ صرف سر اٹھا سکتا ہے بلکہ امریکہ اور مغربی مفادات کے خلاف حملوں کی استعداد حاصل کر سکتا ہے۔
امریکی اہلکاروں کے اندازے کے مطابق، اس وقت داعش خراسان کے کم و بیش 2000 کٹر جنگجو موجود ہیں جو افغانستان کے مختلف علاقوں کے 'سیلز' میں منظم شکل میں موجود ہیں۔
اگست میں جب طالبان کی فوج نے افغانستان میں پیش قدمی کی انھوں نے اہم قیدخانوں سے قیدیوں کو نکالنے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کی تعداد میں کافی اضافہ آ چکا ہے۔
انسداد دہشت گردی کے بین الاقوامی اہلکاروں اور آزاد ماہرین نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ غیر ملکی جنگجوؤں کی تعداد بڑھانے میں داعش خراسان خاصہ کردار ادا کر رہی ہے۔