رسائی کے لنکس

افغانستان میں القاعدہ کے دوبارہ ابھرنے کا خطرہ موجود ہے، امریکی وزیر دفاع کا انتباہ


امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے شہادت کے لیے پیش ہیں۔ (فوٹو: رائٹرز)
امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے شہادت کے لیے پیش ہیں۔ (فوٹو: رائٹرز)

امریکہ کے اعلی دفاعی عہدیداروں نے اپنی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ افغانستان سے آئندہ چند مہینوں میں امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد وہاں موجود سرکردہ دہشت گرد گروپ امریکہ کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

وائس آف امریکہ کے سینئر نمائندے جیف سیلڈن کی رپورٹ کے مطابق، وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعرات کو امریکی اراکین کانگریس کو بتایا کہ القاعدہ جیسے گروپ ممکنہ طور پر دو سال کے اندر اپنی اہلیت دوبارہ حاصل کر لیں گے اور امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر نے کے قابل ہونگے۔

جوانٹ چیفس آف سٹاف مارک ملی پینٹگان میں ایک اجلاس میں شریک ہیں (فوٹو: اے پی)
جوانٹ چیفس آف سٹاف مارک ملی پینٹگان میں ایک اجلاس میں شریک ہیں (فوٹو: اے پی)

جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی نے مزید خبردار کیا کہ یہ عرصہ دو سال سے کم بھی ہو سکتا ہے اور اس کا انحصار افغانستان کی موجودہ حکومت کے مستقبل پر ہے۔

جنرل ملی کا کہنا تھا کہ "اگر افغانستان کی حکومت ناکام ہو جاتی ہے یا مقامی سیکیورٹی فورسز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں، تو ظاہر ہے کہ خطرہ بڑھ جائے گا‘‘

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپریل میں اعلان کیا تھا کہ افغانستان سے باقی ماندہ تمام امریکی افواج 11 ستمبر سے پہلے نکال لی جائیں گی۔ انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ افغانستان کے اندر القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر 11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملے پر جوابدہ ٹہرانے کا بنیادی مقصدحاصل ہو چکا ہے۔

لیکن اس بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی نہ رہی تو وہاں القاعدہ اور اسلامک سٹیٹ خراسان جیسے گروپ دوبارہ ابھرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

امریکی فوج اور انٹیلی جنس عہدیدار متعدد بار انتباہ کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ابھرتے ہوئے خطرات افغانستان اور اس کے پڑوسی ممالک کو غیر مستحکم بنا سکتے ہیں اور دہشت گرد گروپ خود کو مضبوط بنانے اور اپنی ان کارروائیوں کو بڑھانے کا ایسا موقع فراہم کر سکتے ہیں، جس کا انہیں طویل عرصے سے انتظار تھا۔

کرسٹین ابی زید نے، جنہیں امریکہ میں انسداد دہشت گردی کے قومی مرکز کی سربراہ کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، گزشتہ ہفتے اراکین کانگریس کو بتایا کہ جہاں کہیں بھی دہشت گردی کی واضح موجودگی نظر آتی ہے، وہاں یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ وہ مقام ہماری سر زمین کے لیے خطرات کا حامل پلیٹ فارم بن سکتا ہے۔

کیا انخلا کے بعد بھی امریکہ افغان فوج کی مدد جاری رکھے گا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:31 0:00

انہوں نے اس ضرورت پر زور دیا تھا کہ امریکہ القاعدہ اور داعش جیسے گروپوں پر سخت دباو برقرار رکھے۔

اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی ایک حالیہ جائزہ رپورٹ میں بھی ایسے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ افغانستان میں طالبان عسکریت پسند مذاکرات میں اپنی پسند کے نتائج نہ ملنے کی صورت میں افغانستان کی حکومت کو ناکام کرنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔

اس رپورٹ میں اس بارے میں بھی خبردار کیا گیا تھا کہ طالبان کی طرف سے القاعدہ کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کے وعدے کے برعکس ان کے آپس کے تعلقات مزید گہرے ہو گئے ہیں جس کی وجہ آپس میں شادیاں اور مزاحمت میں شراکت داری ہے۔

وائٹ ہاؤس اور پینٹاگان میں عہدیدار کئی مرتبہ یہ یقین دہانی کراتے نظر آئے ہیں کہ اگر القاعدہ اور داعش ممکنہ طور پر دوبارہ سر اٹھاتے ہیں تو ان سے نمٹنے کے لیے اڈوں سے یا مشرق وسطیٰ میں بحری بیڑوں پر کھڑے جنگی طیاروں کے ذریعے وسیع پیمانوں پر فضائی حملوں سے کام لیا جا سکتا ہے۔

سینٹکام کے کمانڈر جنرل کنیتھ مکینزی نے گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا تھا کہ اب بھی امریکہ کے پاس یہ اہلیت ہو گی کہ وہ افغانستان میں القاعدہ اور داعش کا پیچھا کر سکے اور اہداف کا نشانہ بنا سکے۔

صدر جو بائیڈن کی 11 ستبمر کی افغانستان سے انخلا کی مقرر کی ہوئی ڈیڈلائن قریب آ رہی ہے۔ عہدیداروں کے مطابق افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا 50 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔

امریکہ کے جنرل مارک ملی کا کہنا ہے کہ کسی چیز کے بارے میں کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

’’ افغانستان میں کئی طرح کے نتائج سامنے آ سکتے ہیں‘‘

امریکہ اور روس کے سربراہ اجلاس میں افغانستان پر کیا بات ہوئی؟

وائس آف امریکہ کی نمائندہ سنڈی سین کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے مستقبل پر صرف امریکہ کے اندر ہی بات نہیں ہو رہی بلکہ صدر جو بائیڈن اور روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے ذہن میں بھی اس بارے میں بہت کچھ چل رہا ہے۔

صدر بائیڈن گزشتہ روز روسی صدر سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کر رہے ہیں (فوٹو: اے پی)
صدر بائیڈن گزشتہ روز روسی صدر سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کر رہے ہیں (فوٹو: اے پی)

صدر جو بائیڈن نے جنیوا میں روسی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ولادی میر پوٹن نے ان سے افغانستان کے بارے میں بھی استفسار کیا تھا۔

’’ انہوں نے اس (افغانستان) کے بارے میں پوچھا تھا اور کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ہم (روس) وہاں امن اور سلامتی کے لیے کسی حد تک کردار ادا کر پائے ہیں۔ اس پر میں نے کہا کہ اس بارے میں آپ کے لیے بہت کچھ کرنے کو ہے۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے، مدد پر تیار ہیں۔‘‘

واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک سینٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹیڈیز نے بھی ایک آن لائن سیمینار کا اہتمام کیا جس کا عنوان تھا ’پری وینٹنگ دی کیٹاسٹرافی ان افغانستان‘ یعنی افغانستان میں تباہی سے پیشگی بچاؤ کی تدابیر۔ ماہرین نے افغانستان میں گزشتہ سال کی نسبت اس سال کے ابتدائی مہینوں میں تشدد میں 30 فیصد اضافے پر تشویش کا اظہار کیا، تاہم اقوام متحدہ میں افغانستان کی سفیر عدیلہ راز نے ویبنار کے عنوان سے اختلاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مشکلات ضرور ہیں لیکن افغانستان سے باہر ان کو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

’’ میں جانتی ہوں کہ ہم سب بدترین حالات کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ اس بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں۔ لیکن میں بتانا چاہتی ہوں کہ افغانستان کے اندر سے یہ آفت اتنی بڑی نظر نہیں آتی جتنی باہر سے نظر آ رہی ہے۔ اگر یہ تباہی ہے تو پھر ہم نے جو افغانستان کے اندر سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے بارے میں اور اس کی اثر پذیری کے بارے میں سوال پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں وہاں کوئی تباہی نہیں ہے۔ ہاں ہمارے لیے بے حد مشکل آزمائش کا وقت ہے۔‘‘

اقوام متحدہ میں افغانستان کی سفیر کا کہنا تھا کہ امریکہ اور نیٹو کی سرمایہ کاری بارآور رہی ہے اور آج افغانستان کی سیکیورٹی فورسز بہت اہلیت کی حامل ہیں جو دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ ا

ان کے بقول ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان کی لاجسٹیکل اور فنانشل مدد جاری رکھی جائے تاکہ طالبان کبھی یہ نہ سوچ سکیں کہ وہ طاقت کے ساتھ ملک پر قبضہ کر سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG