امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے جمعرات کو کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور ترک صدر رجب طیب ایردوان کے مابین اس ہفتے ہونے والی ملاقات کے دوران اس بات پر اتفاق ہوا کہ کابل ایئر پورٹ کو محفوظ بنانے کا اہم کام ترکی کے حوالے ہو گا۔
امریکی اور ترک صدور کے درمیان اس بات پر اتفاق ایسے وقت میں ہوا ہے جب افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا جاری ہے۔
جیک سلیوان نے بتایا کہ دونوں سربراہان ترکی کی جانب سے ایس 400 قسم کے روسی ساختہ دفاعی نظام کی خریداری کے طویل مدتی معاملے کا تصفیہ نہیں کر پائے۔
ان کے بقول یہ ایک تلخ تنازع ہے جس کے باعث نیٹو ارکان کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور اس معاملے پر مکالمہ جاری رہے گا۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر نے صحافیوں کو بتایا کہ بائیڈن اور ایردوان کی ملاقات پیر کو نیٹو سربراہ اجلاس کے دوران ہوئی جس میں افغانستان کے معاملے پر بات چیت ہوئی۔
سلیوان نے کہا کہ کابل ایئر پورٹ کے تحفظ کے سلسلے میں ایردوان نے مختلف قسم کی امریکی حمایت کے حصول کی بات کی اور بائیڈن نے حمایت فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
جیک سلیوان کا کہنا ہے کہ دونوں سربراہان کی جانب سے اس عزم کے اظہار سے یہ بات طے ہے کہ حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے تحفظ کے سلسلے میں ترکی اہم قائدانہ کردار ادا کرے گا اور اس وقت ہم یہ طے کر رہے ہیں کہ اس ہدف کو کس طرح حاصل کیا جائے۔
اس معاملے پر ترک صدارتی اہلکاروں نے کوئی تفصیل فراہم نہیں کی جب کہ ملاقات میں ہونے والی اس بات چیت سے متعلق امریکہ کی جانب سے مذکورہ تفصیل پیش کی گئی ہے۔
دوسری جانب ترکی اور امریکہ کے مؤقف میں کئی ایک امور پر سخت اختلافِ رائے رہا ہے جن میں ترکی کی جانب سے روسی ہتھیار خریدنے کے ساتھ ساتھ شام اور مشرقی بحیرہ روم کے معاملات پر شامل ہیں۔
اسی لیے دونوں صدور کی ملاقات سے متعلق کہا جا رہا تھا کہ ایردوان اور بائیڈن کی ملاقات کے نتیجے میں کسی پیش رفت کا نہ ہونے کے برابر امکان ہے۔
تاہم ملاقات کے بعد دونوں سربراہان نے خوش گوار تاثر دیا۔ حالاں کہ انہوں نے کسی ٹھوس پیش رفت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ ممکنہ تعاون افغانستان کے معاملے پر ہو سکتا ہے جہاں آئندہ چند ہفتوں کے دوران امریکہ اور نیٹو افواج کا انخلا جاری رہے گا جس دوران ترکی نے کابل ایئرپورٹ کی حفاظت اور آمد و رفت جاری رکھنے کا کام سنبھالنے کی پیش کش کی ہے۔
کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کا کام اس وقت انتہائی اہم ہوجائے گا جب مغربی افواج کا انخلا ہو رہا ہو گا اور افغانستان سے سفارتی مشنز کی واپسی کی کارروائی عمل میں آئے گی۔
گزشتہ ہفتے طالبان کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ امریکی افواج کے انخلا سے متعلق 2020 کے معاہدے کی رو سے ترکی کو افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنی ہوں گی۔
لیکن جیک سلیوان نے کہا کہ طالبان کا یہ بیان امریکہ کی جانب سے مرتب کردہ سیکیورٹی کے 'تفصیلی اور مؤثر' منصوبے کے لیے کسی خطرے کا باعث نہیں ہو گا۔
ان کے بقول طالبان یا افغانستان کے دیگر عناصر کی جانب سے ہم مغربی یا بین الاقوامی افواج پر حملے کی دھمکی کو سنجیدگی اور قابل تشویش معاملہ خیال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ جو کچھ طالبان نے اعلانیہ کہا ہے اس کے نتیجے میں ہمارے سیکیورٹی قائم کرنے کے منصوبے کے لیے کوئی دشواری پیش آ سکتی ہے۔
صدر بائیڈن نے اپنے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اختیار کردہ سخت رویے کے برعکس ایردوان سے متعلق تحمل کا انداز اپنایا ہے۔
تاہم بائیڈن نے فوری طور پر یہ بات تسلیم کی تھی کہ آرمینیا کے خلاف 1915 کا قتل عام نسل کشی کے مترادف تھا جس پر ترکی نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔
یہ بات واضح نہیں ہو پائی کہ آیا ایردوان سے ملاقات کے دوران بائیڈن نے انسانی حقوق کے معاملے کو اٹھایا یا نہیں۔
سلیوان نے یہ بات نہیں بتائی کہ ایس 400 ساختہ روسی دفاعی نظام کی خریداری کے معاملے پر تعطل کو کس طرح سلجھایا جا سکتا ہے جس معاملے کی پاداش میں امریکہ نے ترکی کو ایف 35 لڑاکا جیٹ طیارے تیار کرنے کے پروگرام سے علیحدہ کر دیا تھا اور ترکی پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
جیک سلیوان کے مطابق انہوں نے اس معاملے پر گفتگو کی لیکن معاملے کا حل سامنے نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ ایس 400 کے معاملے پر مکالمہ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا اور اس ملاقات کے بعد اب دونوں فریق اس پر آئندہ غور خوض جاری رکھیں گے۔