افغانستان کے شہریوں نے نیٹو اتحاد کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جس کے تحت انخلا کے بعد بھی افغانستان میں دفاع، افغان فورسز کی تربیت اور انفرانسٹرکچر کے لیے مدد جاری رکھی جائے گی۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ نے برسلز میں ہونے والے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کابل میں سینئر سویلین نمائندے کی تعیناتی کے علاوہ افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو وسعت دی جائے گی۔
کابل میں مقیم ’پژواک‘ نیوز ایجنسی کے سینئر ایڈیٹر جاوید حمیم کاکڑ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے جنگ جاری ہے جس کی وجہ سے سب کچھ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ افغانستان میں جمہوری طرز حکومت ہو یا طالبان کا نظام حکومت آئے، انہیں بیرونی سہارے اور امداد کی ہر وقت ضرورت رہے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ نیٹو اور امریکہ ایک سال سے بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ افغانستان کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑیں گے۔ اس وقت کچھ بنیادی امداد کے ساتھ کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے کیوں کہ یہ اقدام افغانستان میں قائم سفارتی مشنز کے لیے بہت اہم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام امریکہ اور نیٹو کے ہر اس اقدام کو خوش آئند سمجھتے ہیں جس کے تحت ملک میں خوش حالی آئے۔ کیوں کہ افغان عوام جنگ کے بجائے امن کے کاموں کو سراہتے ہیں۔ اس لیے جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہو جاتا یہاں کے عوام کو امدادی کاموں کے لیے بیرونی دنیا کی امداد درکار ہو گی۔
بیلجیم کے شہر برسلز میں نیٹو سربراہان اجلاس کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس کے موقعے پر امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ نیٹو اجلاس میں تمام ممالک میں افغانستان کے حوالے سے اتفاق رائے موجود تھا اور نیٹو اتحاد افغانستان سے انخلا کے بعد بھی افغانوں کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا۔
صدر بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ ہماری فورسز وطن واپس آ رہی ہیں تاہم اجلاس کے دوران اتفاق کیا گیا ہے کہ افغان عوام سے سفارتی، معاشی اور انسان دوستی کا عزم برقرار رہے گا اور افغان قومی دفاع اور سیکیورٹی فورسز کے لیے مدد جاری رکھی جائے گی۔
پیر کو ہونے والے اجلاس میں نیٹو رہنماؤں نے افغانستان میں ’ریزولوٹ سپورٹ مشن‘ کے اختتام کے بعد کابل میں حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے لیے فنڈ برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
نیٹو سربراہی اجلاس کے موقعے پرصدر جو بائیڈن اور ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے درمیان بھی ملاقات ہوئی۔
ترک صدر ک مطابق اس ملاقات کے دوران افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی کی ذمہ داری ترکی کے حوالے کرنے کے معاملے پر بھی بات چیت ہوئی۔ اس صورت میں ترکی کو امریکہ کی سفارتی، لاجسٹک اور مالی تعاون کی ضرورت ہو گی۔
طالبان نے اس بیان پر کوئی تازہ ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔ البتہ کچھ روز قبل ہی طالبان نے ترکی کو متنبہ کیا تھا کہ نیٹو کے ساتھ اسے بھی افغانستان سے نکلنا ہو گا۔
دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد سہیل شاہین نے ایک بیان میں کہا تھا کہ فروری 2020 میں طالبان اور امریکہ ک درمیان دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کے مطابق ترک افواج کو بھی افغانستان سے جانا ہو گا۔
یاد رہے کہ ترکی نیٹو اتحاد کا اہم رکن ہے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان میں ترکی کے 500 فوجی ڈیوٹی پر مامور ہیں۔
’دفاعی مدد کی اشد ضرورت ہے‘
کابل میں مقیم سیکیورٹی امور کے تجزیہ نگار فہیم سادات جاوید حمیم کاکڑ سے اتفاق کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک بات تو واضح ہے کہ موجودہ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بیرونی قوتوں کو افغان حکومت کے ساتھ طویل المدتی شکل میں تعاون کرنا ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ مالی معاونت کے علاوہ افغانستان کو مخالفین کے خلاف اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لیے دفاعی مدد کی بھی اشد ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب امریکی فوج اور نیٹو کے انخلا کا اعلان ہوا تو افغان عوام میں یہ تشویش پیدا ہو گئی تھی کہ آیا وہ افغانستان کو خیر باد کہنے جا رہے ہیں یا ان کے پاس مستقبل کے لیے بھی کوئی لائحہ عمل ہے؟ کیوں کہ افغان حکومت بیرونی امداد کے بغیر اپنی بقا کی جنگ نہیں لڑ سکتی ہے۔
یاد رہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد افغانستان میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور رپورٹس کے مطابق طالبان نے افغانستان میں متعدد اضلاع کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
فہیم سادات کے مطابق نیٹو کی جانب سے امداد جاری رکھنے کا بیان افغانستان کے لیے بہت اہم ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بیان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ ممالک جو افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پیش پیش ہیں وہ افغانستان کی موجودہ حکومت کو نہیں گرانا چاہتے کیوں کہ افغانستان میں خانہ جنگی پورے خطے میں عدم استحکام کے مترادف ہے۔