امریکہ کے وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا ہے کہ افغان عمل میں توقعات کے مطابق تیزی سے پیش رفت نہیں ہو رہی۔ طالبان پرتشدد کارروائیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں جب کہ افغان صدر اشرف غنی اور عبد اللہ عبد اللہ کے درمیان سیاسی سمجھوتہ بھی تاحال نہیں ہو سکا۔
پیر کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکی تھنک ٹینک بروکنگ انسٹی ٹیوٹ میں وڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے مارک ایسپر نے کہا کہ افغان امن عمل اپنے شیڈول سے پیچھے ہے۔
ان کے بقول امریکہ امن معاہدے پر عمل درآمد کے لیے افغان حکومت اور طالبان سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی تھی۔
لیکن، افغانستان میں سیاسی عدم استحکام، قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر سے امن معاہدے پر عمل درآمد التوا کا شکار ہے۔
البتہ مارک ایسپر نے اُمید ظاہر کی کہ صدر غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان شراکت اقتدار کے معاہدے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
ان کے بقول اگر یہ معاہدہ ہو جاتا ہے تو طالبان سے بین الافغان مذکرات میں بات چیت کے لیے ایک متفقہ مذاکراتی ٹیم بھی تشکیل دی جا سکے گی۔
مارک ایسپر نے کہا کہ اگرچہ امن معاہدے طے پانے کے بعد طالبان نے امریکی فورسز پر اپنے حملے روک دیے ہیں۔ لیکن وہ بدستور افغان سیکیورٹی فورسز پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان کے بقول "طالبان کی طرف سے تشدد میں کمی نہیں ہوئی ہے اگرچہ انہوں نے نہ تو ہم (امریکی فورسز) پر اور نہ ہی بڑے شہریوں علاقوں میں کوئی حملے کیے ہیں۔"
مارک ایسپر نے واضح کیا کہ طالبان کے حملوں کے ردعمل میں امریکی فورسز افغان سیکیورٹی فورسز کی حمایت جاری رکھیں گی۔
مارک ایسپر بولے کہ افغان حکومت اور طالبان کے تنازع کا فیصلہ جنگ کے میدان میں نہیں ہو گا۔ اس تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اس کا سیاسی حل ہی ضروری ہے۔
یادر ہے کہ 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات شروع ہونے سے پہلے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہونا تھا۔
جس کے تحت افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار جب کہ طالبان نے افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔
مارک ایسپر نے کہا کہ افغان حکومت اور طالبان نے ایک دوسرے کے کچھ قیدی رہا کیے ہیں لیکن ان کے بقول اس عمل کو تیز ہونا چاہیے۔
دوسری طرف افغان طالبان کے قطر میں واقع سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے گزشتہ تین روز کے دوران افغان حکومت کی طرف سے طالبان کے 300 قیدیوں کو رہا کرنے کے اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔
البتہ اپنی ٹوئٹ میں اُن کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو کرونا وائرس سے بچانے کے لیے رہائی کے عمل میں مزید تیزی آنی چاہیے۔
لیکن امریکی وزیر دفاع کے بیان پر تاحال طالبان کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ البتہ، طالبان کا یہ موقف رہا ہے کہ امریکہ، طالبان معاہدے کے تحت ان کے تمام قیدیوں کی رہائی کے بعد ہی وہ بین الافغان مذاکرات میں شریک ہوں گے۔
طالبان کے مطابق امن معاہدے کے تحت وہ صرف امریکہ اور اتحادی فورسز پر حملے نہ کرنے کے پابند ہیں۔
دوسری طرف افغانستان کی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے وائس امریکہ کو بتایا کہ افغان صدراتی فرمان کے تحت 1500 طالبان قیدیوں کو رہا کیا جانا ہے۔
ان کے بقول ان میں سے اب تک 850 طالبان قیدی رہا کیے جا چکے ہیں باقی 650 کو آئندہ دنوں میں رہا کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ ان 650 قیدیوں کی رہائی کے بعد طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں۔
ان کے بقول افغان حکومت کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے اور افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔