رسائی کے لنکس

امریکی وفد کا دورۂ پاکستان: 'یہ اسلام آباد کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے'


 امریکی محکمہ خارجہ کے قونصلر ڈیرک شولے پاکستانی سیکریٹری خارجہ اسد مجید خان سے ملاقات کر رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے قونصلر ڈیرک شولے پاکستانی سیکریٹری خارجہ اسد مجید خان سے ملاقات کر رہے ہیں۔

امریکی سفارت کاروں کے حالیہ دورۂ پاکستان کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی جانب اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ ماہرین یہ توقع کر رہے ہیں کہ اس دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلٰی عہدے دار نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے تیار ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے قونصلر ڈیرک شولے کی طرف سے ا س عزم کا اظہار ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان کو ایک طرف دہشت گردی اور دوسری جانب ایک مشکل اقتصادی صورتِ حال کا سامنا ہے۔

محکمہ خارجہ کے قونصلر ڈیرک شولے نے 16 اور 17 فروری کو پاکستان کو دورہ کیا ۔

انہوں نے پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری ، وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا ، پاکستان فوج کے سربراہ جنر ل عاصم منیر اور پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اسد مجید اور کئی دیگر عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔

پاکستانی حکام سے ہونے و الی ملاقاتوں میں پاکستان، امریکہ کی شراکت داری مختلف شعبوں میں مضبوط کرنے کے علاوہ باہمی سیکیورٹی تعاون اور انسدادِ دہشت گردی کی کوشش کے معاملات زیرِ بحث آئے۔

حالیہ مہینوں کے دوران پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ رابطوں میں اضافہ ہوا ہے اور رواں ہفتے پاکستان اور امریکہ کے درمیان دفاعی اور سیکیورٹی تعلقات میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے درمیانی سطح کے مذاکرات بھی واشنگٹن میں منعقد ہوئے۔

امریکی سفارت کار شولے کا پاکستان کا یہ دوسرا دورہ ہے اس سے قبل انہوں نےگزشتہ سال ستمبر میں پاکستان میں آنے والے شدید سیلاب کے دوران بھی متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا تھا۔

امریکہ کے اعلیٰ سفارت کار نے اسلام آباد کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب پاکستان کو دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے اور خاص طورپر پاکستان کے دونوں مغربی صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ ماہ کے اواخر میں صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ہونے والے خود کش حملے میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔


پاکستان امریکہ تعلقات اور انسدادِ دہشت گردی

ماہرین کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کی پاکستان میں کارروائیاں حکومت کے لیے دردِ سر بنتی جار ہی ہیں۔ لہذٰا پاکستان امریکہ سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اس معاملے پر پاکستان کے ساتھ تعاون کرے۔

خیال رہے کہ پاکستان، افغان طالبان سے یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

سیکیورٹی اُمور کے سعد محمد کہتے ہیں کہ پاکستان، افغانستان کے حوالے سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کر ہا ہے، لیکن پاکستان مخالف گروپوں کے خلاف افغان طالبان کی جانب سے کارروئی نہ ہونے پر پاکستان کو تحفظات ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سعد محمد کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان افغانستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو اس ضمن میں اسے امریکہ کا تعاون درکار ہو گا۔

سعد محمد کہتے ہیں کہ افغانستا ن میں القاعدہ اور داعش کے عسکریت پسندوں کی موجودگی امریکہ کے لیے بھی باعث تشویش ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چودھر ی کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی کے علاوہ کئی دیگر شعبوں میں تعاون ہو سکتا ہے جن میں اقتصادی، تعلیم ، توانائی اور کئی دیگر شعبے ہیں۔

اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے حالیہ رابطے اس حوالے سے اہم ہیں۔

اُن کے بقول امریکہ کے لیے بھارت کی اسٹرٹیجک اہمیت کے باوجود پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار رکھنا اہم ہے۔

اعزاز چودھری کے بقول اگرچہ ماضی میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا محور افغانستان رہا ہے، تاہم اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ افغانستان کا معاملہ اب نہایت پیچیدہ ہوتا جارہا ہے جب کہ خطے میں دہشت گردی کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔

اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ پاکستان کو انسداد ہشت گردی کے لیے امریکہ سے کسی امداد کی توقع نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی ان کےبقول امریکہ کوئی ایسی پیش کش کر سکتا ہے۔

اعزاز چودھری نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے دفاعی مذکرات کو اہم قرار د یا ہے ان کے بقول پاکستان کے دفاعی آلات اور سازوسامان امریکی اور چینی ساختہ ہیں، اس لیے پاکستان کے لیے امریکہ کے ساتھ دفاعی تعاون کو فروغ دینا اہم ہے۔

بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان اعلی سطح کے حالیہ رابطے پاکستان کے لیے تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ہمیشہ سے کوشش ر ہی ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات دفاعی اور اسٹرٹیجک شعبوں میں وسعت پائیں لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات افغانستان تک ہی محدود رہے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکہ کی طرف سے 2017 میں پاکستان کی سکیورٹی امداد معطل کر دی گئی تھی اور ابھی تک امریکہ کی طرف سے اس بات کو ئی عندیہ نہیں دیا گیا کہ یہ امداد کب بحال ہو گی۔

ہما بقائی کہتی ہیں کہ حال ہی میں واشنگٹن میں مکمل ہونے والے پاکستان، امریکی دفاعی مذاکرات بھی اس بات کا مظہر ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو مزید وسعت دی جا سکتی ہے۔


گزشتہ 20 برس سے زائد عرصے کے دوران پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ ان تعلقات میں مزید کشیدگی گزشتہ برس آئی تھی جب سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکہ نے اُن کی حکومت گرانے کی سازش کی۔

امریکی محکمہ خارجہ کئی بار ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے واضح کر چکا ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور یہاں جمہوری عمل کی حمایت کرتا ہے۔

اب سابق وزیرِ اعظم عمران خان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں۔

تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات خطے میں ہونے والی جیو اسٹرٹیجک صورتِ حال کی وجہ سے بھی متاثر ہوئے جب امریکہ نے اس خطے میں چین کے ابھرتے ہوئے اثر ورسوخ کی وجہ سے امریکہ بھارت کے زیادہ قریب ہو گیا جب پاکستان پہلے ہی چین کے قریب تھا۔

ہمابقائی کہتی ہیں کہ حال ہی میں امریکہ کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے تعاون کی پیش کش ہوتی ہے تو یہ اس بات کا اشارہ ہو گا کہ امریکہ بھی پاکستان کے اپنے تعلقات کو مثبت سمت پر استوار کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

XS
SM
MD
LG