رسائی کے لنکس

ماہی گیروں کی بیویاں جن کے شوہر زندہ ہیں لیکن وہ یاد میں 'مر رہی ہیں'


"ان چار برسوں میں مجھے نہیں معلوم کہ میرے شوہر زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ میں اکثر کوئی برا خواب دیکھ کر اٹھ جاتی ہوں۔ پھر سوچتی ہوں کہ پتا نہیں وہ واپس بھی آئیں گے یا نہیں۔ اور اگر نہ آئے تو کیا ہوگا؟ میں پہلے ہی مر چکی ہوں اور مر جاؤں گی۔"

مچھر کالونی کی رہائشی اسما عبداللہ کی عمر صرف 23 برس ہے۔ کم عمری میں شادی اور تین بچوں کی ماں بننے کے بعد ان کی زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا جس نے انہیں شوہر کے زندہ ہوتے ہوئے بھی بیوگی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔

اسما کے شوہر پیشے کے لحاظ سے ماہی گیر ہیں۔ وہ کئی برس سے ان درجنوں ماہی گیروں کی طرح بھارت میں قید ہیں جنہیں غلطی سے سرحد عبور کرنے کی پاداش میں جیل بھگتنا پڑ رہی ہے۔

پاکستان اور بھارت ہر سال ایک دوسرے کے درجنوں ماہی گیروں کو سرحد عبور کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیتے ہیں۔ ان کی رہائی کئی کئی برسوں کے بعد عمل میں آتی ہے اور اس دوران ان کے اہلِ خانہ ایسے ہی حالات سے گزرتے ہیں جن کا ذکر اسما نے اوپرکیا ہے۔

اسما کے شوہر چار سال قبل گرفتار ہوئے تھے جن کی واپسی کا اب تک کچھ اتا پتا نہیں۔
اسما کے شوہر چار سال قبل گرفتار ہوئے تھے جن کی واپسی کا اب تک کچھ اتا پتا نہیں۔

پاکستان کی فشریز کوآپریٹو سوسائٹی کے اعداد و شمار کے مطابق مچھر کالونی کے 61 ماہی گیر اب بھی بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں سے 58 شادی شدہ ہیں۔ ان ماہی گیروں کی بیگمات بیواؤں کی طرح زندگی زندگی گزار رہی ہیں۔

اسما کی شادی کو 10 سال ہو چکے ہیں۔ ان کے شوہر عبداللہ ایوب چار سال قبل سمندر میں شکار پر گئے اور پھر ان کی کشتی بھارت کی سمندری حدود میں پکڑی گئی۔

اسما کو اپنے شوہر کی گرفتاری کی اطلاع انڈین میڈیا پر چلنے والی ایک خبر سے ملی جو فشریز نے سوشل میڈیا پر دیکھی تو انہیں مطلع کیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسما نے بتایا کہ ان کے خاندان کے لیے گرفتاری کا صدمہ اتنا بڑا تھا کہ ان کے سسر بیٹے کی جدائی میں فوت ہو گئے۔ کچھ ماہ بعد ہی ان کی ساس کا بھی انتقال ہوگیا۔ اب وہ اپنے شوہر کی ایک کنواری بہن اور اپنے تین بچوں کے ساتھ کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔

اسما کے شوہر عبداللہ ایوب
اسما کے شوہر عبداللہ ایوب

کچھ ایسی ہی کہانی مچھر کالونی کی زینب کی بھی ہے جو اپنے والد اور بھائی کی گرفتاری کے بعد ان کی رہائی کے لیے کئی برس بھاگ دوڑ کرتی رہیں۔

انہوں نے بتایا کہ "کبھی کبھی تو میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے کہ میں بس کا کرایہ دے سکوں۔ میں مچھر کالونی سے آرام باغ تھانے تک پیدل جایا کرتی تھی۔"

کراچی کی مچھر کالونی کی آبادی تقریباً سات لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ بنیادی ضروریات سے محروم اس علاقے میں کام کرنے والی مقامی این جی اوز کا کہنا ہے کہ یہاں کی 65 فی صد آبادی بنگالی ہے جن کی بڑی تعداد ماہی گیری سے وابستہ ہے۔

مرد دن رات کشتیوں پر گزارتے ہیں جب کہ خواتین اور بچے معمولی اجرت کے عوض چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں۔

زینب کا گھرانہ بھی انہی حالات میں معمول کی زندگی گزار رہا تھا جب پانچ فروری 2013 کو ان کے والد امیر حسین اور بھائی شبیر معمول کے مطابق شکار پر سمندر میں تو گئے لیکن واپس نہ آ سکے۔

امیر حسین اپنی اہلیہ فاطمہ اور بیٹی زینب کے ہمراہ۔
امیر حسین اپنی اہلیہ فاطمہ اور بیٹی زینب کے ہمراہ۔

کئی روز بعد انہیں خبر ملی کہ ان کے والد کی کشتی بھارتی نیوی نے تحویل میں لے لی ہے جس پر کئی ماہی گیر سوار تھے۔ اس واقعے کے بعد زینب اور ان کی والدہ فاطمہ کی آزمائش شروع ہوگئی۔

زینب کے بقول "ہمارے والد اور بھائی ہی ہمارے کفیل تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے ہم نے کبھی گھر سے باہر قدم ہی نہیں رکھا تھا۔ ان کی گرفتاری کے بعد تو ہمیں کچھ معلوم ہی نہیں تھا کہ کہاں جائیں؟ کس سے مدد مانگیں؟"

اسی کشمکش میں سات ماہ گزر گئے جس کے بعد زینب کسی کے بتانے پر اپنی والدہ کے ہمراہ کراچی کے آرام باغ تھانے پہنچیں۔

"میں اتنی ڈری ہوئی تھی کہ تھانے جا کر ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ پولیس والوں کو دیکھ کر خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اماں کا رو رو کر برا حال تھا۔ کئی روز ہمیں یوں آتا دیکھ کر ایک رحم دل پولیس والے نے، جن کا نام سلیم تھا، ہم سے پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے؟ ہم نے انہیں بتایا تو پھر ابّا اور بھائی کی رہائی کے لیے کام شروع ہوا۔"

گرفتاری کے دو سال بعد زینب کے والد امیر حسین 2015 میں رہا ہو کر واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان پہنچ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ گرفتاری سے قید تک وہ اپنے بیٹے کے ساتھ تھے۔ جب رہا ہوئے تو تب بھی ان کا بیٹا ان کے ساتھ تھا۔ لیکن وہ پاکستان نہیں پہنچا۔

امیر حسین اپنے بیٹے شبیر کی تصویر دکھاتے ہوئے۔
امیر حسین اپنے بیٹے شبیر کی تصویر دکھاتے ہوئے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں امیر حسین نے بیٹے کی جدائی کو یاد کرتے ہوئے بتایا "جب وہ ہمیں گاڑیوں میں بٹھانے لگے تو مجھے کہا گیا کہ تمہارا بیٹا دوسری گاڑی میں ہے۔ میں واہگہ پہنچا تو دیکھا بیٹا نہیں ہے۔ میں رویا، چیخا، احتجاج کیا تو مجھے کہا گیا کہ اس کی رہائی کا حکم نہیں آیا، وہ بھی آ جائے گا۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ "ہم جام نگر جیل میں تھے تو بیٹا میری نظروں کے سامنے تو تھا لیکن جب سے وہ میری نظروں سے اوجھل ہوا ہے میرا دل پھٹ چکا ہے۔ میں اس کی جدائی میں بیمار ہوگیا۔ کچھ کمانے کے لائق بھی نہیں رہا۔ روز در در کی ٹھوکریں کھاتا ہوں کہ کسی طرح اس کی واپسی ممکن ہوجائے۔ اس کی ماں کو بھی تب سے قرار ہی نہیں ہے۔"

امیر حسین سے اپنی اہلیہ فاطمہ کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ وہ بیٹے کی یاد میں ہر وقت افسردہ اور غمگین رہتی ہیں۔ اسی لیے انہوں نے بیٹے کی تصویر بھی ان سے چھپا کر رکھی ہے۔

انہوں نے ہمیں دکھانے کے لیے تصویر نکالی تو فاطمہ کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اپنے سینے سے بیٹے کی تصویر لگائے وہ روتی جاتیں اور کہتیں،

"میرے بیٹے، میں نے آج تجھے دیکھا ہے۔ میرے کلیجے کو آج کچھ ٹھنڈک ملے گی۔ میں تو کسی کو بد دعا بھی نہیں دے سکتی۔ میں نے خدا سے کتنی فریادوں کے بعد یہ بیٹا پایا تھا۔ تو نہ آیا تو میں تیرے انتظار میں مر جاؤں گی۔"

شبیر کی والدہ فاطمہ
شبیر کی والدہ فاطمہ

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فاطمہ نے بتایا کہ "شبیر میرا بہت خیال رکھتا تھا۔ کچھ بھی کھانے کو لاتا تو پہلے مجھے اپنے ہاتھ سے کھلاتا پھر خود کھاتا تھا۔ اس کے جانے کے بعد میں نے کھانا پینا ہی چھوڑ دیا۔ کھانے کی کوئی بھی چیز دیکھوں تو وہ یاد آتا ہے۔ نہ جانے وہاں کس حال میں ہوگا، کیا کھاتا ہوگا۔ ہر عید تہوار پر نگاہ دروازے پر ہوتی ہے کہ اب شبیر آجائے گا۔ نہ جانے وہ دن کب آئے گا؟"

آدھی بیواؤں کی سی زندگی

ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہنے والی ہاجرہ کی زندگی بھی وسوسوں، اندیشوں اور غیر یقینی کا شکار ہے۔ بھوک افلاس سے لڑتے لڑتے ہاجرہ مایوسی کا شکار ہو جاتی ہیں لیکن اپنے پانچ بچوں کو دیکھ کر وہ پھر ہمت باندھتی ہیں۔

ہاجرہ بھی بھارت میں قید اپنے شوہر عظیم الدین کا گزشتہ چار برس سے انتظار کر رہی ہیں۔ خاوند کی غیر موجودگی میں وہ معمولی اجرت کے عوض جھینگوں کی صفائی کر کے اپنا گھر چلا رہی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ "میرا چھوٹا بیٹا اب ساڑھے تین برس کا ہو چکا ہے۔ میں دو ماہ کی حاملہ تھی جب میرا شوہر گرفتار ہوا تھا۔ میں نے حاملہ ہوئے ہوئے اپنے سسر کے ساتھ ہر جگہ دھکے کھائے کہ کسی طرح شوہر کی واپسی ممکن ہو لیکن جواب میں صرف تسلیاں اور دلاسے ملے۔"

ہاجرہ عظیم
ہاجرہ عظیم

"پھر میرے بیٹے نے مجھ سے کہا کہ ماں، ابا تو اب نہیں آئیں گے۔ اب سے ہم کام کریں گے۔ میرا چھوٹا سا بیٹا رات کو فشریز جاتا ہے اور صبح آتا ہے۔ میرا دل بہت ڈرتا ہے مگر اللہ کے حوالے کر کے بھیجتی ہوں۔ جب اس کا کمایا ہوا کھاتی ہوں تو اور دکھ ہوتا ہے۔"

ہاجرہ کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے شوہر کا بے صبری سے انتظار ہے۔ چاہے کتنے ہی سال بیت جائیں وہ ان کی منتظر رہیں گی۔ ہاجرہ کے مطابق انہیں بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ دوسری شادی کرلو جس پر وہ انہیں جواب دیتی ہیں کہ میرے یہ پانچ بچے ہی میرے شوہر ہیں۔

سمندری حدود نے اپنوں کو تقسیم اور بے سہارا کر دیا

شوہر کی جدائی میں غمگین اسما حکمرانوں سے سوال کرتی ہیں کہ ماہی گیر سمندر میں سرحد کا کیسے پتا لگا سکتے ہیں؟ وہ تو اپنی اولادوں کا پیٹ پالنے جاتے ہیں۔ دو ملکوں کی لڑائی میں وہ ہمارے ماہی گیر پکڑ کر لے جاتے ہیں ہم ان کے لوگ یہاں لے آتے ہیں۔ اس سے حکومتوں کو کیا فرق پڑتا ہے، پستا تو صرف غریب ہی ہے۔

زینب نے اپنے بھائی اور والد کی تلاش میں اپنے گھر کی بھی قربانی دے دی۔ ان کے شوہر نے انہیں اس بات پر طلاق دے دی کہ وہ اپنے والدین کے گھر ایک ہی بار چلی جائیں اور وہاں کی ذمّے داریاں ہی ادا کرلیں۔

زینب کے مطابق میں نے یہ بھاگ دوڑ اس لیے کی کہ میری ماں، شوہر اور بیٹے کی جدائی میں اپنے حواس کھو بیٹھی تھیں۔ جب ابا رہا ہو کر آئے تو مجھے یہ امید ملی کہ اب گھر کو سنبھالنے والا لوٹ آیا ہے۔

بھائی اور والد کی رہائی کی جدوجہد کے دوران زینب کو طلاق ہوگئی۔
بھائی اور والد کی رہائی کی جدوجہد کے دوران زینب کو طلاق ہوگئی۔

"لیکن میری جدوجہد تو اب بھی جاری ہے کیوں کہ بھائی کے صدمے میں ابا بھی بیمار ہوگئے ہیں۔ اب مجھے ماں کے ساتھ ساتھ باپ کو بھی سنبھالنا پڑ رہا ہے۔"

زینب نے بتایا کہ تین سال پہلے بھارتی جیل سے رہا ہونے والے ایک قیدی نے ان کے بھائی کی خیریت کی نوید سنائی تھی۔ شبیر نے اسے کہا تھا کہ میرے گھر جا کر بتانا کہ میں بھی رہائی کا منتظر ہوں اور سب کو بہت یاد کرتا ہوں۔

"یہ کہتے ہوئے شبیر کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بس یہی وہ آخری پیغام تھا۔ تب سے اب تک انتظار ہے اور یہ دروازہ جس پر نگاہ ٹھہری ہوئی ہے۔"

اقوامِ متحدہ کا سمندروں سے متعلق قانون ہے جس کے آرٹیکل 73 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر غلطی سے بھی چاہے وہ بھارت کے ماہی گیر ہوں یا پاکستان کے ان سے اگر بارڈر کراس ہو جاتا ہے تو آپ ان کی شناخت کر کے اسی وقت یا دو دن میں چھوڑ دیں۔ لیکن جس قانون پر دونوں ملکوں نے دستخط کیے ہوئے ہیں اس کی یہ خود ہی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ یہ کہنا ہے فشر فوک فورم کے چیئرمین مہران علی شاہ کا ۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مہران شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے دفتر ِ خارجہ کی جانب سے 2022 کی جاری کردہ لسٹ کے مطابق بھارتی جیلوں میں 339 عام پاکستانی شہری اور 95 ماہی گیر قید ہیں ۔

اُن کے بقول پاکستانی جیلوں میں قید بھارتی ماہی گیروں کی تعداد 654 اور عام شہریوں کی تعداد 51 ہے ۔

دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات اور کوئی منظم ادارہ جس سے ان گرفتاریوں کی بابت معلومات لی جاسکے نہ ہو ہونے سے ان ماہی گیروں کی قید برسوں میں تبدیل ہو جاتی ہے جو ان کے خاندانوں کو توڑ کر رکھ دیتی ہے ۔

یہ دونوں ممالک ابھی تک ماہی گیروں کو مزدور نہیں سمجھتے اسی وجہ سے ان پر لیبر لا لاگو نہیں ہوتا جب کہ یہ طبقہ محنت کش طبقہ ہے اور ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس کے باوجود مزدو سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک ان کے لیے قوانین اور بہتری کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں ۔

مہران کے مطابق بھارتی جیلوں میں قید ان پاکستانی ماہی گیروں تک رسائی کے لیے ہمیں ان کے خاندانوں سے کوائف لے کر مختلف اداروں جن میں ایجنسیاں شامل ہیں دینے پڑتے ہیں۔ احتجاج کر کے ان کی رہائی کے لیے حکومت کو یاد دہانی کروانی پڑتی ہے تب کہیں جا کر کئی برسوں بعد ان کی رہائی ممکن ہو پاتی ہے۔

XS
SM
MD
LG