امریکی محکمہ انصاف نے سابق صدرڈونلڈ ٹرمپ کے دور کےاس اقدام کے نام کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد چین کی طرف سے معاشی جاسوسی کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا تھا مگرناقدین کا کہنا تھا کہ اس کے سبب امریکی کالجوں میں چینی پروفیسر ز ان کی نسل کی وجہ سے غیر منصفانہ طور پر نشانہ بن رہے ہیں۔
'چائنا انیشی ایٹو'پروگرام کے نام کو ختم کا اعلان بدھ کو محکمہ انصاف کے اعلیٰ قومی سلامتی کے اہلکار نےکیا۔
یہ فیصلہ ان الزامات پر ایک ماہ تک جاری رہنے والے جائزے کے بعد کیا گیا کہ پروگرام نے تعلیمی تعاون پر منفی اثر ڈالا ہے، اور اس سے ایشیائی نسل کے لوگوں کے خلاف تعصبانہ رویے میں اضافہ ہوا ہے۔
خیال رہے کہ محکمے کو کئی انفرادی کیسز میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں گزشتہ سال تعلیمی محققین کے خلاف متعدد مقدمات برخاست کر دیے گئے۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل میتھیو اولسن نے کہا کہ محکمہ امریکی مفادات کے دفاع کے سلسلے میں انتھک کام کرتا رہے گا۔
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹد پریس کے مطابق انہوں نے کہا کہ اب محکمہ امریکہ کو درپیش خطرات کو بھانپنے کے لیے، چائنا انیشی ایٹو کا لیبل استعمال نہیں کرے گا کیونکہ ملک کو چین کے علاوہ روس، ایران، شمالی کوریا اور دوسروں سے بھی خطرات کا سامنا ہے۔
بقول میتھیو اولسن''مجھے یقین ہے کہ ہمیں ایک وسیع تر نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جو ان تمام خطرات کو دیکھے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے تمام تر اختیارات کو استعمال کرے۔"
چائینا انیشی ایٹیو پروگرام 2018 میں صدر ٹرمپ کے اس وقت کے اٹارنی جنرل جیف سیشنز کی قیادت میں قائم کیا گیا تھا۔
اس وقت کے حکام کے بقول اس پروگرام کا مقصد چین کی طرف سے امریکی املاک دانش چوری کرنے اور امریکی صنعت اور تحقیق کی جاسوسی کرنے کی جارحانہ کوششوں کو ناکام بنانا تھا۔
حقیقی خدشات
اولسن نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ یہ اقدام قومی سلامتی کے حقیقی خدشات کی وجہ سے کیا گیا تھا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں یقین نہیں کہ تفتیش کاروں نے نسلی بنیادوں پر پروفیسرز کو نشانہ بنایا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایشیائی امریکی گروپوں کے تحفظات پر کچھ کرنا بھی ان کے لیے ضروری تھا۔
اولسن نے کہا: " ایسی کوئی بھی بات جو یہ تاثر پیدا کرتی ہو کہ محکمہ انصاف نسل کی بنیاد پر مختلف معیارات کا اطلاق کرتا ہے اس سے محکمے اور ہماری کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے اور اس سے عوام کو نقصان پہنچتا ہے۔"
ماضی میں اس منصوبے کے نتیجے میں ان ہیکرز سمیت لوگوں کو سزائیں ہوئیں جن پر امریکی کمپنیوں کے نیٹ ورکس میں مداخلت کا الزام ہے۔
یہ پروگرام، بہر حال ، ان کوششوں کے ساتھ منسلک ہوا جن کے تحت ان یونیورسٹی پروفیسرز کی تفتیش کی گئی جن پر یہ الزام تھا کہ انہوں نےتحقیقی مقاصد کے لیے وفاقی فنڈنگ کے حصول کی درخواستوں میں چینی حکومت سے اپنے تعلقات کو چھپایا۔
وفاقی وکیل استغاثہ متوقع طور پر گرانٹس حاصل کرنے میں فراڈ کے ان کیسز پر کام کرتے رہیں گے جن میں بدنیتی یا سنگین دھوکہ دہی کے ثبوت ہوں اور جن کا تعلق معاشی اور قومی سلامتی سے ہو۔
واشنگٹن میں محکمہ انصاف کے قومی سلامتی ڈویژن کے پراسیکیوٹرز اس سلسلے میں ایک نگران کردار ادا کریں گے۔ان میں سے کچھ معاملات میں استغاثہ کے وکیل فوجداری الزامات کے بجائے سول یا انتظامی حل کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
محکمے کی جانب سے بدھ کو کیا جانے والا اعلان ایسےوقت میں سامنے آیا ہے جب محکمے نے خود بہت سے مقدمات کو برخاست کر دیا یا ججوں نے ان کیسز کو خارج کر دیا۔
مثلا اس سال جنوری کے مہینے میں محکمے نے میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر گینگ چن کے خلاف اپنا وہ مقدمہ خارج کر دیا جس میں ٹرمپ انتظامیہ کے آخری دنوں میں الزام عائد کیا گیا تھا۔ وکیل استغاثہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ اس کیس میں ثبوت لانے کے کام کو پورا نہیں کر سکتے۔ انہیں محکمہ توانائی نے بتایا کہ پروفیسر گینگ چن پر یہ لازم نہیں تھا کہ وہ وفاقی گرانٹ کی اپنی درخواست میں مذکورہ معلومات ظاہر کرتے۔
(اس خبر میں شامل معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)