رسائی کے لنکس

پاکستان سے عملی اقدام کی توقع ہے: امریکی عہدیدار


ایلس ویلز (فائل فوٹو)
ایلس ویلز (فائل فوٹو)

امریکہ کی ایک اعلیٰ سفارت کار نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں سرگرم شدت پسندوں سے نمٹنے کی کوششوں کی ناصرف حمایت کرے بلکہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں بھی اپنا کردار ادا کرے۔

یہ بات قائم مقام نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ایلس ویلز نے جمعہ کو واشنگٹن میںکہی جنہوں نے حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے ہمراہ پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں کا دورہ کیا۔

انھوں نے کہا کہ امریکہ آئندہ ہفتوں کے دورانپاکستان کی طرف سے اس حوالے سے عملی اقدامات کی توقع کرتا ہے تاہم انہوں نے ان عملی اقدامات کی وضاحت نہیں کی ہے۔

یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہےجب اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان حالیہ ہفتوں میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے رابطوں کو اگرچہمبصرین خوش آئندتو قرار دے رہے ہیں تاہم وہ یہ سمجھتے ہیں کہباہمی اعتماد سازی کے لیے دونوں ملکو ں کو بہت کچھکرنے کی ضرورت ہے۔

اگرچہ پاکستان کی طرف سےامریکی سفارت کار کے تازہ بیان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن پاکستان کا موقف رہا ہے کہ اب طالبان پر اسلام آباد کا اثرو روسوخ کم ہو گیا تاہم افغانستان کے مسئلہ کے سیاسی حل کے لیے وہ اپنا کردارادا کرنے پرتیار ہے۔

افغان امور کے ماہر اور سینیئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے کہاکہ حالیہ اعلیٰ سطحپر ہونے والے رابطوں کے باوجود پاکستان اور امریکہ کے باہمی تحفظات اپنی جگہموجود ہیں۔

" واشنگٹن میں یہ احساس ہے کہ پاکستان کے ساتھ رابطوں کو برقرار رکھنا فائدہ مند ہے اور اگر صرف دھمکیاں دیں گے تو کام نہیں بنے گا اور اس بارے میں تفہیم پیدا ہورہی ہے کہ یہ دیکھنا ہے کہ مشترکہ مقاصد کیا ہیں اور کیا ممکن ہے اور کیا ممکن نہیں ہے، اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے خلاف کوئی بڑی کارروائی ہو گی اس کا انحصار آئندہ کے ان حالا ت پر ہے کہ پاکستان جو اقدام کرے گا تو کیا امریکہ ان سے مطمئن ہو گا یا نہیں۔"

انھوں نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے باہمی اعتماد ضروری ہے۔

" میرے خیال میں دونوں کو اعتماد قائم کرنا پڑے گا، کچھ کام کرنے پڑیں گے تاکہ اعتماد بحال ہو سکے اس کے بعد ہی میرے خیال میں یہ ممکن ہو گا کہ مشترکہ طور پر کوئی بڑا قدم اٹھا سکیں، جیسے مذاکرات کروانا، مذاکرات کو کامیاب کروانا یہ ایک بڑا چیلنج اور پیچیدہ کام ہے، اس کے لیے پہلے اعتماد سازی ضروری ہے۔"

رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ امریکہ توقع کرتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے تاہم ان کے بقول اس کے لیے افغان مسئلہ کے سیاسی حل کے لیے قائم چارملکی گروپ میں شامل دیگر ملکوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنے ضروری ہے۔

حالیہ سالوں میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سرد مہری کا شکار رہے ہیں۔ امریکہ کا موقف ہے کہ پاکستان افغانستان میں سرگرم افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے جو افغانستا ن میں حملوں کے لیے مبینہ طور پر پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔

اسلام آباد اپنے ہاں ان گروپوں کی موجودگی کو مسترد کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی ہے اور اگر پاکستان کو قابل عمل انٹیلی جنس معلومات فراہم کی جاتی ہیں تو وہ اس کی بنیاد پرکارروائی کرنے پر تیار ہے۔

XS
SM
MD
LG