واشنگٹن —
صدر اوباما کی طرف سے بغیر پائلٹ والے ہوائی جہازوں یعنی ڈرونز کے حملوں کو دہشت گردی کے انسداد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
بعض ناقدین کہتے ہیں کہ اس پروگرام میں نگرانی اور شفافیت کا فقدان ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیالات اس پروگرا م کے بارے میں ملے جلے ہیں۔
ریپبلیکن سینیٹر رینڈ پال نے ڈرونز کے استعمال کے بارے میں صدر اوباما پر اپنی تنقید میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے قبل انھوں نے اس مسئلے کو سی آئی اے کے سربراہ جان برینن کے تقرر کی توثیق کو عارضی طور سے روکنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
سینیٹر پال نے گذشتہ بدھ کو کنزرویٹو پالیٹیکل ایکشن کمیٹی کی کانفرنس کو بتایا کہ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ صدارتی اختیارات کو محدود کیا جائے۔
‘‘میں نے جو کیا وہ ڈرونز کے بارے میں تو تھا لیکن اس کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ تھی۔ کیا ہمارے پاس بل آف رائٹس ہے؟ کیا ہمارے پاس آئین ہے اور کیا ہم اس کے دفاع کے لیے تیار ہیں؟’’
وائس آف امریکہ کے انگریزی پروگرام ان کاؤنٹر میں تجزیہ کاروں نے اس سوال پر بحث کی کہ کیا اوباما انتظامیہ نے ڈرون پروگرام کو اس مقصد سے زیادہ وسعت دے دی ہے جس کے لیے یہ پروگرام شروع کیا گیا تھا۔
اٹلانٹک کونسل کی ڈینیا گرین فلیڈ کہتی ہیں کہ شروع میں انسدادِ دہشت گردی کے کچھ مخصوص مقاصد تھے۔
‘‘جب ڈرون پروگرام شروع کیا گیا تو اس کے استعمال کے لیے خاصے سخت معیار مقرر کیے گئے تھے۔ بنیادی اصول یہ تھا کہ جس شخص کو نشانہ بنایا جاتا وہ کسی فوری حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہوتا یا اس میں شریک ہوتا۔ اور یہ وہ لوگ ہوتے جنہیں پکڑا نہیں جا سکتا تھا۔ ڈرونز کے حملوں میں جنگ کے ضابطوں کی پابندی کی جاتی۔’’
گرین فیلڈ کہتی ہیں کہ اب یہ سب تبدیل ہو گیا ہے۔ ‘‘اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس پروگرام کو وسعت دے دی گئی ہے۔ اب کسی فرد کو انٹیلی جنس کی مخصوص اطلاعات اور ان کی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنانے کے بجائے لوگوں کو ان کے مشتبہ طرزِ عمل یا بعض حرکات کی بنا پر جو مشتبہ نظر آتی ہوں، نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی شخص کے بارے میں یہ پتہ ہو کہ وہ کون ہے۔ میرے خیال میں، اس طرح غلط انٹیلی جنس کی بنا پر لوگوں کو نشانہ بنانے میں غلطی ہونے کا امکا ن بہت زیادہ ہے۔’’
نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی کے تھامس لینچ اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں امریکہ کے ڈرون پروگرام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
‘‘میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے اور یہ بالکل صحیح وقت ہے کہ انتظامیہ اس پروگرام کو وسعت دے اور آگے بڑھائے۔’’
تھامس کہتے ہیں کہ نشانہ بنا کر کیے جانے والے حملے قرنِ افریقہ، صومالیہ اور یمن سمیت کئی علاقوں میں بہت موئثر ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔
‘‘میں یہ بات کہتا رہا ہوں کہ پاکستان میں ڈرونز کے حملے بند کر دیے جائیں کیوں کہ پاکستان کی 18 کروڑ آبادی میں ان سے ہمارے خلاف نفرت اور غصے کے جذبات بھڑک رہے ہیں۔ 2011 تک القاعدہ کے کارندوں کی ایک مخصوص تعداد ہلاک کی جا چکی تھی اور اب ڈرونز کے حملوں سے ہمیں اگر کچھ فائدہ ہو رہا ہے تو اس کے مقابلے میں دشمنی کے جذبات زیادہ شدید ہو رہے ہیں۔’’
پاکستان میں امریکی اسٹریٹجی کی جانچ کی جا رہی ہے۔ وہاں افغانستان کے سرحد سے ملے ہوئے قبائلی علاقے میں امریکہ کے خفیہ ڈرون حملوں کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔
پاکستان میں ڈرونز کے حملوں سے سویلین آبادی میں ہلاکتوں کی تفتیش کرنے والی اقوامِ متحدہ کی ٹیم کے مطابق پاکستان اپنے علاقے پر امریکہ کے ڈرونز کے حملوں کو اپنے اقتدارِ اعلیٰ کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔
14 مارچ کی رپورٹ میں، اقوامِ متحدہ کی ٹیم کے لیڈر بین ایمرسن نے یہ بھی کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ ڈرونز کی کارروائیوں سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہو رہا ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس علاقے میں دہشت گردی مستقل مسئلہ بن سکتی ہے۔
اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پروگرام کی لاگت اور فائدوں کے بارے میں بحث جاری رہے گی۔
صدر اوباما نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں امریکی کانگریس سے رابطہ جاری رکھیں گے۔
اپنی فروری کی اسٹیٹ آف دی یونین تقریر میں صدر اوباما نے کہا کہ وہ ایسا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کریں گے کہ دہشت گردوں کو نشانہ بنانے، انہیں حراست میں رکھنے اور مقدمہ چلانے کی کارروائیاں امریکی قوانین اور اس کے نگرانی اور توازن کے نظام کے مطابق رہیں۔
بعض ناقدین کہتے ہیں کہ اس پروگرام میں نگرانی اور شفافیت کا فقدان ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیالات اس پروگرا م کے بارے میں ملے جلے ہیں۔
ریپبلیکن سینیٹر رینڈ پال نے ڈرونز کے استعمال کے بارے میں صدر اوباما پر اپنی تنقید میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے قبل انھوں نے اس مسئلے کو سی آئی اے کے سربراہ جان برینن کے تقرر کی توثیق کو عارضی طور سے روکنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
سینیٹر پال نے گذشتہ بدھ کو کنزرویٹو پالیٹیکل ایکشن کمیٹی کی کانفرنس کو بتایا کہ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ صدارتی اختیارات کو محدود کیا جائے۔
‘‘میں نے جو کیا وہ ڈرونز کے بارے میں تو تھا لیکن اس کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ تھی۔ کیا ہمارے پاس بل آف رائٹس ہے؟ کیا ہمارے پاس آئین ہے اور کیا ہم اس کے دفاع کے لیے تیار ہیں؟’’
وائس آف امریکہ کے انگریزی پروگرام ان کاؤنٹر میں تجزیہ کاروں نے اس سوال پر بحث کی کہ کیا اوباما انتظامیہ نے ڈرون پروگرام کو اس مقصد سے زیادہ وسعت دے دی ہے جس کے لیے یہ پروگرام شروع کیا گیا تھا۔
اٹلانٹک کونسل کی ڈینیا گرین فلیڈ کہتی ہیں کہ شروع میں انسدادِ دہشت گردی کے کچھ مخصوص مقاصد تھے۔
‘‘جب ڈرون پروگرام شروع کیا گیا تو اس کے استعمال کے لیے خاصے سخت معیار مقرر کیے گئے تھے۔ بنیادی اصول یہ تھا کہ جس شخص کو نشانہ بنایا جاتا وہ کسی فوری حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہوتا یا اس میں شریک ہوتا۔ اور یہ وہ لوگ ہوتے جنہیں پکڑا نہیں جا سکتا تھا۔ ڈرونز کے حملوں میں جنگ کے ضابطوں کی پابندی کی جاتی۔’’
گرین فیلڈ کہتی ہیں کہ اب یہ سب تبدیل ہو گیا ہے۔ ‘‘اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس پروگرام کو وسعت دے دی گئی ہے۔ اب کسی فرد کو انٹیلی جنس کی مخصوص اطلاعات اور ان کی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنانے کے بجائے لوگوں کو ان کے مشتبہ طرزِ عمل یا بعض حرکات کی بنا پر جو مشتبہ نظر آتی ہوں، نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی شخص کے بارے میں یہ پتہ ہو کہ وہ کون ہے۔ میرے خیال میں، اس طرح غلط انٹیلی جنس کی بنا پر لوگوں کو نشانہ بنانے میں غلطی ہونے کا امکا ن بہت زیادہ ہے۔’’
نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی کے تھامس لینچ اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں امریکہ کے ڈرون پروگرام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
‘‘میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے اور یہ بالکل صحیح وقت ہے کہ انتظامیہ اس پروگرام کو وسعت دے اور آگے بڑھائے۔’’
تھامس کہتے ہیں کہ نشانہ بنا کر کیے جانے والے حملے قرنِ افریقہ، صومالیہ اور یمن سمیت کئی علاقوں میں بہت موئثر ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔
‘‘میں یہ بات کہتا رہا ہوں کہ پاکستان میں ڈرونز کے حملے بند کر دیے جائیں کیوں کہ پاکستان کی 18 کروڑ آبادی میں ان سے ہمارے خلاف نفرت اور غصے کے جذبات بھڑک رہے ہیں۔ 2011 تک القاعدہ کے کارندوں کی ایک مخصوص تعداد ہلاک کی جا چکی تھی اور اب ڈرونز کے حملوں سے ہمیں اگر کچھ فائدہ ہو رہا ہے تو اس کے مقابلے میں دشمنی کے جذبات زیادہ شدید ہو رہے ہیں۔’’
پاکستان میں امریکی اسٹریٹجی کی جانچ کی جا رہی ہے۔ وہاں افغانستان کے سرحد سے ملے ہوئے قبائلی علاقے میں امریکہ کے خفیہ ڈرون حملوں کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔
پاکستان میں ڈرونز کے حملوں سے سویلین آبادی میں ہلاکتوں کی تفتیش کرنے والی اقوامِ متحدہ کی ٹیم کے مطابق پاکستان اپنے علاقے پر امریکہ کے ڈرونز کے حملوں کو اپنے اقتدارِ اعلیٰ کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔
14 مارچ کی رپورٹ میں، اقوامِ متحدہ کی ٹیم کے لیڈر بین ایمرسن نے یہ بھی کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ ڈرونز کی کارروائیوں سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہو رہا ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس علاقے میں دہشت گردی مستقل مسئلہ بن سکتی ہے۔
اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پروگرام کی لاگت اور فائدوں کے بارے میں بحث جاری رہے گی۔
صدر اوباما نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں امریکی کانگریس سے رابطہ جاری رکھیں گے۔
اپنی فروری کی اسٹیٹ آف دی یونین تقریر میں صدر اوباما نے کہا کہ وہ ایسا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کریں گے کہ دہشت گردوں کو نشانہ بنانے، انہیں حراست میں رکھنے اور مقدمہ چلانے کی کارروائیاں امریکی قوانین اور اس کے نگرانی اور توازن کے نظام کے مطابق رہیں۔