امریکہ نے کہا ہے کہ اس نے جمعرات کو ایران کے تین سابق عہدیداروں اور ان دو کمپنیوں پر عائد پابندیاں ہٹا دی ہیں جو ایران کے تیل اور اس سے متعلق کیمیکلز کا کاروبار کرتی تھیں۔
امریکہ نے اس کارروائی کو معمول کا اقدام قرار دیا ہے، لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ امریکہ ایران پر پابندیوں میں نرمی کے لیے تیار ہے بشرطیکہ اس کا جواز موجود ہو۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، ایک امریکی عہدیدار نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ امریکی محکمہ خزانہ کے بیرونی اثاثوں پر کنٹرول کے دفتر (آفس آف دی فارن ایسٹس کنٹرول) کے اس اقدام کا ایران کی جانب سے سال 2015 کے جوہری معاہدے پر ایران یا امریکہ کی طرف سے عمل درآمد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کا محکمہ خارجہ اور اس کا آفس آف دی فارن ایسٹس کنٹرول ایران کے تین سابق حکومتی عہدیداروں اور دو کمپنیوں پر سے پابندیاں ہٹا رہا ہے۔ بیان مزید کہا گیا ہے کہ یہ اقدام ایرانی اکائیوں کے رویے یا سٹیٹس میں مصدقہ تبدیلی کا مظہر ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ ایسی تبدیلیوں کی صورت میں پابندیاں ہٹانے کے لیے پرعزم ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایران کی تینوں شخصیات نے ثبوت پیش کئے ہیں کہ اب ایران کے حکومتی اداروں میں ان کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد پابندیاں بحال رکھنے کی کوئی وجہ موجود نہیں تھی۔
ذرائع ابلاغ کی ان خبروں کے بعد کہ امریکہ نے ایران کی تیل کی صنعت سے متعلق عہدیداروں پر پابندیاں ہٹا دی ہیں، آئل مارکیٹ میں گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے اگر ایران پر سے پابندیاں ہٹ گئیں تو اس کے تیل کے مارکیٹ پر کیا اثرات ہوں گے۔
ایران امریکہ مذاکرات
دوسری جانب ایران اور امریکہ کے عہدیدار ویانا میں اس اختتام ہفتہ بالواسطہ مذاکرات کے چھٹے دور کا آغاز کر رہے ہیں جس میں غور کیا جا رہا ہے کہ دونوں فریق کس طرح جوہری معاہدے کی بحالی کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ اس معاہدے کو جوائنٹ کمپری ہنیسو پلان آف ایکشن ( جے سی پی او اے) کہا جاتا ہے۔
اس معاہدے کے تحت ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو اس حد تک محدود کرنا ہے کہ وہ خام ایندھن سے جوہری ہتھیار نہ بنا سکے۔ اس کے بدلے میں امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے ایران کو رعایات فراہم کرنا ہیں۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سال 2018 میں امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کر لیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ یہ معاہدہ ایران کو چند جوہری پابندیوں کے عوض زیادہ رعایتیں فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے ایران کے تیل کی برآمد پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
ایران نے بھی ایک سال بعد اس امریکی اقدام کا جواب نیوکلئیر پروگرام کو محدود بنانے کے وعدے کی خلاف ورزی کی صورت میں دیا تھا۔
بات چیت کی بحالی کی امید
امریکہ کے صدر جو بائیڈن امید رکھتے ہیں کہ جوہری معاہدے میں واپسی اتفاق رائے سے ممکن ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد ایران کی جانب سے جوہری حدود کا اور امریکہ کی جانب سے بدلے میں ہٹائی جانے والی پابندیوں کا تعین کرنا ہے اور یہ طے کرنا ہے کہ دونوں چیزیں کس طرح ساتھ ساتھ چلیں گی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ان مذاکرات کے بارے میں نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ’’ ہم نے پیش رفت کی ہے لیکن، جیسا کہ آپ نے پہلے سن رکھا ہے، مسائل اب بھی موجود ہیں۔ اور بڑے بڑے مسائل دونوں فریقوں میں بدستور تفریق قائم رکھے ہوئے ہیں‘‘
امریکی محکمہ خزانہ نے جن تین ایرانی عہدیداروں یا جن دو کمپنیوں کو پابندیوں والی فہرست سے نکالا ہے، ان کا نام نہیں بتایا گیا ہے۔ البتہ آفس آف دا فارن ایسٹس کنٹرول نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا ہے کہ اس نے جن تین افراد کا نام فہرست سے نکالا ہے ان میں نیشنل ایرانین آئل کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر احمد غالبانی، ہانگ کانگ انٹر ٹریڈ کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر فراز بازرغان اور نفطران انٹر ٹریڈ کمپنی کی کمرشل ڈائریکٹر محمد معینی شامل ہیں۔
اس دفتر کے مطابق اس نے سی چارمنگ شپنگ کمپنی لمیٹڈ اور آگسنگ شپ مینیجمنٹ شنگھائی لمیٹڈ پر سے بھی بعض پابندیاں ہٹا دی ہیں۔