نیویارک —
امریکہ میں نومبر کے انتخاب سے قبل صدر براک اوباما اور رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اُن کے حریف اُمیدوار مٹ رومنی کے درمیان منگل کی شب قومی معیشت، توانائی اور خارجہ اُمور پر ہونے والے دوسرے صدارتی مباحثے میں دونوں نے ایک دوسرے پر کڑی نکتہ چینی کی۔
نیویارک کی ہفسٹرا یونیورسٹی میں ’ٹاؤن ہال‘ طرز پر منعقدہ اس بحث کے شرکاء کا چناؤ اس معیار پر کیا گیا تھا کہ اُنھوں نے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ صدارتی انتخاب میں کس امیدوار کو ووٹ دیں گے۔
رومنی نے امریکی صدر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے گزشتہ چار سالوں میں بجٹ خسارہ دوگنا کر دیا ہے اپنے وعدے بھی پورے نہیں کیے۔
’’بے روزگاری کی شرح اب پانچ اعشاریہ چار فیصد ہو جائے گی۔ موجودہ شرح اور پانچ اعشاریہ چار فیصد میں فرق یہ ہے کہ اس وقت نو لاکھ امریکی بے روزگار ہیں۔‘‘
رومنی نے کہا کہ صدر اوباما نے وعدہ کیا تھا کہ وہ صحت عامہ اور سوشل سکیورٹی میں اصلاحات کے منصوبے اب تک پیش کر چکے ہوں گے کیونکہ اُنھوں نے اس کی وجہ مالی دوالیہ پن کا رجحان بتائی تھی۔ مگر صدر نےاصلاحات کے حوالے سے ان میں سے کسی پربھی کوئی ایک تجویز تک نہیں دی ہے۔
صدر اوباما کا انداز بھی انتہائی جارحانہ تھا اور جواب دیتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے اپنے اکثر وعدے پورے کیے ہیں، مگر جو پورے نہیں ہوئے اس کی وجہ ’’سعی کا فقدان‘‘ نہیں ہے۔
’’چار سال قبل میں نے امریکی عوام اور آپ سے کہا تھا کہ میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے لیے ٹیکسوں میں کٹوتی کروں گا۔ میں نے چھوٹے کاروباری طبقے پر بھی ٹیکسوں میں کٹوتی کا کہا تھا جو میں نے کیا۔ میں نے کہا تھا کہ میں عراق میں جنگ کا خاتمہ کروں گا اور میں نے کیا۔ میں نے کہا تھا کہ میں صرف اُن لوگوں پر توجہ مرکوز رکھوں گا جنہوں نے ہم پر نائن الیون کو حملہ کیا، اور ہم نے ماضی کے برعکس القاعدہ کی قیادت کا تعاقب کیا اور اُسامہ بن لادن اب مرچکا ہے۔‘‘
علاوہ ازیں دونوں صدارتی امیدواروں نے مباحثے میں تارکین وطن، لیبیا میں امریکی قونصل خانے پر حملے سے متعلق اپنا اپنا موقف پیش کیا۔
رومنی کا کہنا تھا کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کو استنثا نہیں دیں گے۔ انھوں نے قانونی طور پر امریکہ آنے والوں کے لیے نظام کو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا طریقہ کار وضع کریں گے جس سے تارکین وطن کو یہاں آنے کے بعد قانون مدد کی ضرورت پیش نہ آئے۔
صدر اوباما نے اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ملک میں قانونی طور پر آنے والوں کے لیے امیگریشن کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے سب کچھ کیا جو وہ کرسکتے تھے۔
لیبیا میں امریکی قونصل خانے پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں سفیر اور تین دیگر سفارتی اہلکاروں کی ہلاکت پر مسٹر رومنی نے صدر پر الزام لگایا کہ انھوں نے امریکی عوام کو یہ بتانے کے لیے کہ یہ دہشت گردوں کی کارروائی تھی، دو ہفتے لگا دیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ صدر نے اس حملے پر توجہ دینے کی بجائے اپنی انتخابی مہم جاری رکھی۔
صدر اوباما نے کہا کہ انھوں نے بن غازی کے حملے کو اگلے ہی روز دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان کی رائے میں حکومت کا کوئی بھی شخص اگر لیبیا کے معاملے پر سیاست کرے یا امریکی عوام کو گمراہ کرے تو یہ ناپسندیدہ اقدام ہے۔
دونوں صدارتی اُمیدوارں کے درمیان آئندہ چار سالوں کے دوران امریکہ کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے ایک دوسرے کے منصوبوں پر بھی تکرار ہوئی۔
نیویارک کی ہفسٹرا یونیورسٹی میں ’ٹاؤن ہال‘ طرز پر منعقدہ اس بحث کے شرکاء کا چناؤ اس معیار پر کیا گیا تھا کہ اُنھوں نے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ صدارتی انتخاب میں کس امیدوار کو ووٹ دیں گے۔
رومنی نے امریکی صدر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے گزشتہ چار سالوں میں بجٹ خسارہ دوگنا کر دیا ہے اپنے وعدے بھی پورے نہیں کیے۔
’’بے روزگاری کی شرح اب پانچ اعشاریہ چار فیصد ہو جائے گی۔ موجودہ شرح اور پانچ اعشاریہ چار فیصد میں فرق یہ ہے کہ اس وقت نو لاکھ امریکی بے روزگار ہیں۔‘‘
رومنی نے کہا کہ صدر اوباما نے وعدہ کیا تھا کہ وہ صحت عامہ اور سوشل سکیورٹی میں اصلاحات کے منصوبے اب تک پیش کر چکے ہوں گے کیونکہ اُنھوں نے اس کی وجہ مالی دوالیہ پن کا رجحان بتائی تھی۔ مگر صدر نےاصلاحات کے حوالے سے ان میں سے کسی پربھی کوئی ایک تجویز تک نہیں دی ہے۔
صدر اوباما کا انداز بھی انتہائی جارحانہ تھا اور جواب دیتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے اپنے اکثر وعدے پورے کیے ہیں، مگر جو پورے نہیں ہوئے اس کی وجہ ’’سعی کا فقدان‘‘ نہیں ہے۔
’’چار سال قبل میں نے امریکی عوام اور آپ سے کہا تھا کہ میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے لیے ٹیکسوں میں کٹوتی کروں گا۔ میں نے چھوٹے کاروباری طبقے پر بھی ٹیکسوں میں کٹوتی کا کہا تھا جو میں نے کیا۔ میں نے کہا تھا کہ میں عراق میں جنگ کا خاتمہ کروں گا اور میں نے کیا۔ میں نے کہا تھا کہ میں صرف اُن لوگوں پر توجہ مرکوز رکھوں گا جنہوں نے ہم پر نائن الیون کو حملہ کیا، اور ہم نے ماضی کے برعکس القاعدہ کی قیادت کا تعاقب کیا اور اُسامہ بن لادن اب مرچکا ہے۔‘‘
علاوہ ازیں دونوں صدارتی امیدواروں نے مباحثے میں تارکین وطن، لیبیا میں امریکی قونصل خانے پر حملے سے متعلق اپنا اپنا موقف پیش کیا۔
رومنی کا کہنا تھا کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کو استنثا نہیں دیں گے۔ انھوں نے قانونی طور پر امریکہ آنے والوں کے لیے نظام کو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا طریقہ کار وضع کریں گے جس سے تارکین وطن کو یہاں آنے کے بعد قانون مدد کی ضرورت پیش نہ آئے۔
صدر اوباما نے اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ملک میں قانونی طور پر آنے والوں کے لیے امیگریشن کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے سب کچھ کیا جو وہ کرسکتے تھے۔
لیبیا میں امریکی قونصل خانے پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں سفیر اور تین دیگر سفارتی اہلکاروں کی ہلاکت پر مسٹر رومنی نے صدر پر الزام لگایا کہ انھوں نے امریکی عوام کو یہ بتانے کے لیے کہ یہ دہشت گردوں کی کارروائی تھی، دو ہفتے لگا دیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ صدر نے اس حملے پر توجہ دینے کی بجائے اپنی انتخابی مہم جاری رکھی۔
صدر اوباما نے کہا کہ انھوں نے بن غازی کے حملے کو اگلے ہی روز دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان کی رائے میں حکومت کا کوئی بھی شخص اگر لیبیا کے معاملے پر سیاست کرے یا امریکی عوام کو گمراہ کرے تو یہ ناپسندیدہ اقدام ہے۔
دونوں صدارتی اُمیدوارں کے درمیان آئندہ چار سالوں کے دوران امریکہ کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے ایک دوسرے کے منصوبوں پر بھی تکرار ہوئی۔