امریکہ میں رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ ڈیموکریٹک صدر براک اوباما، اور ان کے ریپبلیکن مدِّ مقابل ، ریاست میسا چوسٹس کے سابق گورنر، مِٹ رومنی کے درمیان برابر کا مقابلہ ہے ۔ جائزوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ذاتی حیثیت سے صدر اوباما ووٹروں میں زیادہ مقبول ہیں، لیکن معیشت کے معاملے میں رومنی کو معمولی سی برتری حاصل ہے۔
گیلپ کے روزانہ کے جائزے کے مطابق صدر اوباما کو مٹ رومنی پر معمولی سی، یعنی46 کے مقابلے میں 47 کی برتری حاصل ہے۔ نومبر کے انتخاب میں اب تقریباً 90 دن باقی رہ گئے ہیں۔ اپریل سے اب تک، گیلپ کے روزانہ کے جائزَ ے میں خفیف سی کمی بیشی ہوئی ہے ۔ تجزیہ کار کہتےہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انتخاب کے دن تک برابر کا مقابلہ رہے گا۔
Quinnipiac University کے پولنگ انسٹی ٹیوٹ کے پیٹر براؤن کہتے ہیں’’ایسا لگتا ہے کہ قومی سطح پر مسٹر اوباما کو معمولی سی سبقت حاصل ہے، اور ایسی ریاستوں میں جو کسی بھی طرف جا سکتی ہیں، اوباما تھوڑا سے آگے ہیں۔ لیکن فرق بہت زیادہ نہیں ہے۔‘‘
تین ریاستوں میں جہاں سخت مقابلہ ہو گا یا جو کسی بھی طرف جا سکتی ہیں، دونوں امیدواروں میں برابر کا مقابلہ ہے۔ ریاست کولوریڈو میں رومنی پانچ پوائنٹ آگے ہیں، جب کہ صدر اوباما کو ورجینیا میں چار پوائنٹ اور ریاست وسکانسن میں چھ پوائنٹ کی برتری حاصل ہے ۔ 2008 میں ان تینوں ریاستوں میں مسٹر اوباما جیتے تھے، اور اس سال ان کا شمار ان درجن بھر ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں کانٹے کا مقابلہ ہو گا، اور جنہیں صدارتی انتخاب کی مہمیں اپنی تنظیمی اور اشتہاری سرگرمیوں کا مرکز بنائیں گی۔
براؤن کہتے ہیں کہ صدارتی انتخاب کی مہم میں تیزی اس وقت آئے گی جب رومنی اپنے نائب صدر کے امیدوار کے نام کا اعلان کریں گے۔ یہ اعلان جلد ہی متوقع ہے۔ اس کے بعد، دونوں پارٹیوں کے نامزدگی کے کنونشن اگست کے آخر میں، اور ستمبر کے پہلے ہفتے میں منعقد ہوں گے ۔
’’اس انتخاب پر صحیح معنوں میں کئی واقعا ت اثر انداز ہوں گے۔ مسٹر رومنی اپنے نائب صدر کے لیے کس کا انتخاب کرتے ہیں، اور ریپبلیکن کنونشن اور ڈیموکریٹک کنونشن اور ان میں یہ دونوں امیدوار کس قسم کا تاثر چھوڑتے ہیں ۔ اور پھر، انتخابی مہم کا نقطۂ عروج وہ ہوگا جب دونوں امیدواروں کے درمیان مباحثے ہوں گے ۔‘‘
اکتوبر کے شروع میں تین صدارتی مباحثوں کا آغاز ہو گا ۔ ان کے علاوہ ایک مباحثہ نائب صدارت کے دو امیدواروں کے درمیان ہو گا۔
اخبار نیو یارک ڈیلی نیوز کے کہنہ مشق سیاسی تجزیہ کار ٹام ڈی فرینک کہتے ہیں کہ مٹ رومنی ریپبلیکن پارٹی کے کنونشن میں خود کو امریکی ووٹروں سے متعارف کرانے کی کوشش کریں گے۔
’’میرے خیال میں رائے عامہ کے جائزوں میں رومنی کی پوزیشن بہتر ہوگی جب وہ نائب صدر کے لیے اپنے امیدوار کے نام کا اعلان کریں گے، اور پھر جب وہ کنونشن میں نامزدگی کو قبول کرنے کی تقریر کریں گے، تو ا ن کی مقبولیت مزید بڑھے گی ۔ میرا خیال ہے کہ اس کنونشن کے بعد ، رومنی کو مزید چند پوائنٹس کی سبقت حاصل ہو جائے گی۔‘‘
ڈی فرینک یہ بھی کہتے ہیں کہ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر ووٹروں نے پہلے ہی طے کر لیا ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے۔ ایسے ووٹروں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے جنہیں انتخابی مہموں میں ، 6 نومبر سے پہلے، قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
’’میرے خیال میں بنیادی بات یہ ہے کہ صدر اوباما امریکی ووٹروں کی اکثریت کو قائل نہیں کر سکے ہیں کہ وہ دوبارہ صدر منتخب کیے جانے کے اہل ہیں۔ اور نہ ہی گورنر رومنی نے امریکیوں کی اکثریت کو قائل کیا ہے کہ وہ امریکہ کے صدر کے عہدے کے اہل ہیں۔‘‘
دونوں امیدواروں کی انتخابی مہموں اور ان کے لیے فنڈز جمع کرنے والے گروپوں نے ، جنہیں سپر PACs یا پولیٹیکل ایکشن کمیٹیاں کہا جاتا ہے، گذشتہ چند ہفتوں میں ایسے اشتہاروں پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں جن میں ایک دوسرے پر حملے کیے گئے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ ایسے ووٹروں کی حمایت حاصل کی جائے جنھوں نے اب تک فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ عمل نومبر تک جاری رہے گا۔
گیلپ کے روزانہ کے جائزے کے مطابق صدر اوباما کو مٹ رومنی پر معمولی سی، یعنی46 کے مقابلے میں 47 کی برتری حاصل ہے۔ نومبر کے انتخاب میں اب تقریباً 90 دن باقی رہ گئے ہیں۔ اپریل سے اب تک، گیلپ کے روزانہ کے جائزَ ے میں خفیف سی کمی بیشی ہوئی ہے ۔ تجزیہ کار کہتےہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انتخاب کے دن تک برابر کا مقابلہ رہے گا۔
Quinnipiac University کے پولنگ انسٹی ٹیوٹ کے پیٹر براؤن کہتے ہیں’’ایسا لگتا ہے کہ قومی سطح پر مسٹر اوباما کو معمولی سی سبقت حاصل ہے، اور ایسی ریاستوں میں جو کسی بھی طرف جا سکتی ہیں، اوباما تھوڑا سے آگے ہیں۔ لیکن فرق بہت زیادہ نہیں ہے۔‘‘
تین ریاستوں میں جہاں سخت مقابلہ ہو گا یا جو کسی بھی طرف جا سکتی ہیں، دونوں امیدواروں میں برابر کا مقابلہ ہے۔ ریاست کولوریڈو میں رومنی پانچ پوائنٹ آگے ہیں، جب کہ صدر اوباما کو ورجینیا میں چار پوائنٹ اور ریاست وسکانسن میں چھ پوائنٹ کی برتری حاصل ہے ۔ 2008 میں ان تینوں ریاستوں میں مسٹر اوباما جیتے تھے، اور اس سال ان کا شمار ان درجن بھر ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں کانٹے کا مقابلہ ہو گا، اور جنہیں صدارتی انتخاب کی مہمیں اپنی تنظیمی اور اشتہاری سرگرمیوں کا مرکز بنائیں گی۔
براؤن کہتے ہیں کہ صدارتی انتخاب کی مہم میں تیزی اس وقت آئے گی جب رومنی اپنے نائب صدر کے امیدوار کے نام کا اعلان کریں گے۔ یہ اعلان جلد ہی متوقع ہے۔ اس کے بعد، دونوں پارٹیوں کے نامزدگی کے کنونشن اگست کے آخر میں، اور ستمبر کے پہلے ہفتے میں منعقد ہوں گے ۔
’’اس انتخاب پر صحیح معنوں میں کئی واقعا ت اثر انداز ہوں گے۔ مسٹر رومنی اپنے نائب صدر کے لیے کس کا انتخاب کرتے ہیں، اور ریپبلیکن کنونشن اور ڈیموکریٹک کنونشن اور ان میں یہ دونوں امیدوار کس قسم کا تاثر چھوڑتے ہیں ۔ اور پھر، انتخابی مہم کا نقطۂ عروج وہ ہوگا جب دونوں امیدواروں کے درمیان مباحثے ہوں گے ۔‘‘
اکتوبر کے شروع میں تین صدارتی مباحثوں کا آغاز ہو گا ۔ ان کے علاوہ ایک مباحثہ نائب صدارت کے دو امیدواروں کے درمیان ہو گا۔
اخبار نیو یارک ڈیلی نیوز کے کہنہ مشق سیاسی تجزیہ کار ٹام ڈی فرینک کہتے ہیں کہ مٹ رومنی ریپبلیکن پارٹی کے کنونشن میں خود کو امریکی ووٹروں سے متعارف کرانے کی کوشش کریں گے۔
’’میرے خیال میں رائے عامہ کے جائزوں میں رومنی کی پوزیشن بہتر ہوگی جب وہ نائب صدر کے لیے اپنے امیدوار کے نام کا اعلان کریں گے، اور پھر جب وہ کنونشن میں نامزدگی کو قبول کرنے کی تقریر کریں گے، تو ا ن کی مقبولیت مزید بڑھے گی ۔ میرا خیال ہے کہ اس کنونشن کے بعد ، رومنی کو مزید چند پوائنٹس کی سبقت حاصل ہو جائے گی۔‘‘
ڈی فرینک یہ بھی کہتے ہیں کہ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر ووٹروں نے پہلے ہی طے کر لیا ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے۔ ایسے ووٹروں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے جنہیں انتخابی مہموں میں ، 6 نومبر سے پہلے، قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
’’میرے خیال میں بنیادی بات یہ ہے کہ صدر اوباما امریکی ووٹروں کی اکثریت کو قائل نہیں کر سکے ہیں کہ وہ دوبارہ صدر منتخب کیے جانے کے اہل ہیں۔ اور نہ ہی گورنر رومنی نے امریکیوں کی اکثریت کو قائل کیا ہے کہ وہ امریکہ کے صدر کے عہدے کے اہل ہیں۔‘‘
دونوں امیدواروں کی انتخابی مہموں اور ان کے لیے فنڈز جمع کرنے والے گروپوں نے ، جنہیں سپر PACs یا پولیٹیکل ایکشن کمیٹیاں کہا جاتا ہے، گذشتہ چند ہفتوں میں ایسے اشتہاروں پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں جن میں ایک دوسرے پر حملے کیے گئے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ ایسے ووٹروں کی حمایت حاصل کی جائے جنھوں نے اب تک فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ عمل نومبر تک جاری رہے گا۔