امریکہ کی مشرقی ریاست ورجینیا میں آج کل کدّو اور تُرئیوں کی فصل تیار ہے ۔ کھیت مزدور ان سبزیوں کو پانی کے ٹب میں دھو رہے ہیں۔ اس کے بعد انہیں ڈبوں میں پیک کیا جائے گا اور مشرقی ساحل کی سپر مارکٹس میں بھیج دیا جائے گا۔
سارے کھیت مزدور ہسپانوی زبان بولنے والے لوگ ہیں۔ پچھلی نسلوں کی طرح، یہ لوگ بھی امریکہ میں اقتصادی مواقع کی تلاش میں آئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے مارٹنز کی طرح غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ مارٹنز ،جن کا اصل نام کچھ اور ہے، کہتے ہیں’’اصل بات یہ ہے کہ ہم یہاں چار پیسے کمانے آئے ہیں۔ ہمارے ملک میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔بہتر مستقبل کے لیے میں یہاں آیا ہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ سرحد پار کرنے کے لیے ہمیں بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔‘‘
مارٹنز کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک میکسیکن اسمگلر کو میکسیکو کی سرحد کے پار امریکہ پہنچانے کے لیے دو ہزار ڈالر ادا کیے ۔ پھر وہ ریگستان میں آٹھ راتیں پیدل چلتے رہے اور دن کو سوتے تھے ۔ آخر کار وہ ورجینیا پہنچ گئے۔
Loreto Ventura نے 30 برس پہلے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر سرحد پار کی تھی۔ اب ان کا اپنا کاروبار ہے اور وہ امریکی شہری ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’سب لوگ یہاں کام کرنے آتے ہیں۔ وہ یہاں تک پہنچنے کے لیے بڑی سختیاں جھیلتے ہیں اور بہت پیسہ دیتے ہیں۔ وہ یہاں کام لینے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگا دیتے ہیں اور کام بھی ایسا جو بہت مشکل ہے۔‘‘
کھیت مزدور ہر روز سورج نکلنے سے پہلے اٹھ جاتے ہیں اور سارا دن سخت دھوپ میں کام کرتے ہیں۔ وہ سارا دن جھک کر سبزیاں توڑتے ہیں او ر بھاری وزن اٹھاتے ہیں۔ امریکہ میں آج کل بے روزگاری کی شرح تقریبا دس فیصد ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ غیر قانونی مزدور، امریکیوں سے ان کے جاب چھین رہے ہیں۔لیکن جب یونائیٹڈ فارم ورکرز یونین نے بے روزگار امریکیوں کو کھیت میں کام دینے کی پیشکش کی، تو نو ہزار لوگوں نے کام کے بارے میں پوچھا اور صرف تین افراد کام کے لیے تیار ہوئے ۔یونین کے صدر، Arturo Rodriguez کہتے ہیں کہ بیشتر لوگ کام کے مشکل حالات کے بارے میں سن کر پیچھے ہٹ گئے ۔ Rodriguez نے کہا’’انہیں کچھ انداز ہ ہی نہیں ہے کہ آج کل زراعت کے شعبے میں کام کرنے کا کیا مطلب ہے ۔ ہم اس پرانے معاشرے سے اتنے دور ہو گئے ہیں، کہ لوگ اسے بالکل بھول گئے ہیں۔‘‘
امریکہ میں مہمان کارکنوں کا پروگرام ہے جس کے تحت امریکی کاشتکار تارکین وطن کو قانونی طور پر ملازم رکھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ کاشتکار، جنھوں نے درخواست کی کہ ان کا نام نہ بتایا جائے، کہتے ہیں کہ اس پروگرام کا دفتری چکّر ایک ڈراؤنے خواب کی مانند ہے ۔ ’’جتنے بھی لوگوں کو میں جانتا ہوں وہ بڑی خوشی سے یہ پروگرام استعمال کرنا چاہیں گے اور ہر ہسپانوی زبان بولنے والا مزدور قانونی حیثیت پسند کرے گا۔ لیکن اس پروگرام کو استعمال کرنا بے حد مشکل ہے اور اس پر بے تحاشا پیسہ خرچ ہوتا ہے اور لوگ پھر بھی نہیں ملتے۔ فصل تیار ہو جاتی ہے اور لوگ پھر بھی نہیں پہنچتے۔ ساری فصل برباد ہو جاتی ہے ۔ بیشتر کاشتکار یہ خطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے امریکیوں کو ملازم رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ کام کرنے کے لیے کافی تعداد میں لوگ میسر نہیں آتے۔ سچی بات یہ ہے کہ کوئی امریکی یہ نہیں چاہتا کہ اس کے بچے بڑے ہو کر کھیتوں میں کام کریں۔
لیکن فیڈریشن فار امریکن امیگریشن رفارم کے جیک مارٹن کہتے ہیں کہ یہ بات تو صحیح ہے کہ والدین اپنے بچوں سے کھیت مزدور بننے کے بجائے بہتر توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ لیکن بے روزگار لوگوں کی تعداد بھی کافی ہے اور اگر زراعت کے شعبے میں انہیں اچھی اجرت ملنے لگے، تو لوگ یہ کام کرنے لگیں گے ۔ مارٹن کہتے ہیں کہ کئی عشروں سے کھیت مزدوروں کی اجرت بہت کم اور کام کے حالات خراب رہے ہیں، کیوں کہ غیر قانونی لیبر مسلسل آتی رہی ہے ۔ جہاں تک گیسٹ ورکر پروگرام کا تعلق ہے، تو اس کے استعمال نہ کیے جانے کی بعض وجوہ ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ قانونی گیسٹ ورکر کو استعمال کرنے کے بجائے غیر قانونی ورکر کو جس کے پاس جعلی کاغذات ہوں، استعمال کرنا سستا پڑتا ہے ۔ مارٹن کہتے ہیں کہ چونکہ قانونی تارکین وطن کو قانونی تحفظ نہیں ملتا ، اس لیے ان کا استحصال آسان ہو جاتا ہے ۔
گیسٹ ورکر پروگرام میں اصلاح کا قانون امریکی کانگریس میں پھنسا ہوا ہے ۔ اس دوران، کاشتکاروں میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں وہ اپنے کارکن کھو بیٹھیں گے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر تازہ پھل اور سبزیاں توڑنے کے لیے مزدور نہ ملے تو یہ فصلیں امریکی کھیتوں میں سڑ جائیں گی۔ اور بالآخر، یہ فارم نیست و نابود ہو جائیں گے۔