افغانستان میں امریکہ کے اعلیٰ ترین فوجی کمانڈر نے کہا ہے کہ نئے اختیارات ملنے کے بعد سے ان کی فورسز طالبان کے اہداف کو "تقریباً روزانہ" نشانہ بنا رہی ہیں، جس کا مقصد ملک سے عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے خاتمے کی افغان حکومت کی کوششوں میں اعانت ہے۔
بگرام فضائی اڈے پر منگل کو بات کرتے ہوئے جنرل جان نکولسن کا کہنا تھا کہ طالبان کے خلاف کارروائیوں میں افغان فورسز کی مدد کے لیے اب ان کے فوجی بہتر طور پر تیار ہیں اور وہ مختلف علاقوں میں یہ مشن انجام دے رہی ہیں۔
جنرل نکولسن یہ بات افغانستان کے غیر اعلانیہ دورے پر آئے امریکی وزیردفاع ایش کارٹر کے ہمراہ آئے ہوئے صحافیوں سے گفتگو میں بتائی۔
قبل ازیں کابل میں کارٹر کا کہنا تھا کہ صدر براک اوباما کی طرف سے امریکی فورسز کو تفویض کیے جانے والے اضافی اختیارات سے امریکی اور افغان فورسز کو "ان کی کارکردگی کو زیادہ موثر"طریقے سے استعمال کرنے کی اجازت ملی ہے۔
ان اختیارات سے افغانستان میں تعینات امریکی فوجی اب طالبان کو براہ راست نشانہ بنا سکتے ہیں۔ پہلے وہ صرف اسی صورت میں طالبان کو ہدف بنا سکتے تھے کہ اگر وہ ان کی زد میں ہوں یا افغان اتحادیوں کو عسکریت پسندوں سے کوئی فوری خطرہ ہو۔
نئے اختیارات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے جنرل نکولسن نے گزشتہ سال شمالی صوبہ قندوز میں طالبان کے قبضے اور وہاں جاری رہنے والی لڑائی کے حوالہ دیا اور کہا کہ اس میں امریکی فورسز "دفاعی" پوزیشن میں تھیں کیونکہ ان کے اختیارات محدود تھے۔
لیکن اب ان کے بقول امریکی فورسز کو واضح رہنما اصول دے دیے گیے ہیں جو انھیں طالبان کو زیادہ آزادی سے ہدف بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی صدر براک اوباما نے اعلان کیا گیا تھا کہ افغانستان میں 2016ء کے بعد بھی 8400 امریکی فوجی تعینات رہیں گے۔ اس سے قبل اعلان کردہ منصوبے کے تحت 2016ء کے اختتام تک افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد کو کم کر کے 5500 تک کرنا تھا۔
امریکہ کی طرف سے یہ فیصلہ افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے تناظر میں کیا گیا۔
صدر اوباما کے فیصلے کے بعد گزشتہ ہفتے پولینڈ کے شہر وارسا میں نیٹو کے سربراہ اجلاس میں رکن ممالک نے بھی اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ بھی افغانستان میں فوجیوں کی قابل ذکر تعداد برقرار رکھیں گے۔