افغانستان میں امریکی فورسز پاک افغان سرحد کے قریب شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف لڑائی کو مہمیز کر رہی ہیں اور اس شدت پسند گروپ کو رواں سال شکست دینے کے لیے پرعزم ہیں۔
یہ بات ریزولیوٹ اسپورٹ مشن کے کابل میں ترجمان امریکی نیوی کے کیپٹن بل سالوون نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو بتائی۔
انھوں نے کہا کہ " 2017ء میں ہمارا مقصد داعش خراسان کو افغانستان میں شکست دینا ہے۔"
داعش کی اس شاخ نے افغانستان اور پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں اپنے قدم جمانا شروع کیے اور اپنے دہشت گرد نیٹ ورک کے لیے جنگجو بھرتی کرنا شروع کیے۔ تاریخی اعتبار سے افغانستان سے مشرقی ایشیا اور فارس تک علاقے خراسان کہلوایا کرتے تھے۔
سالوون کا کہنا تھا کہ " 2016ء کا آغاز ننگرہار کے 12 اضلاع میں داعش خراسان کے تین ہزار یا اس سے کچھ زیادہ جنگجوؤں سے ہوا۔ اس وقت ہمارے خیال میں لگ بھگ چھ سو جنگجو دو یا تین اضلاع میں باقی رہ گئے ہیں۔"
لیکن افغانستان میں بین الاقوامی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن نے حال ہی میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ میدان جنگ میں نقصانات کے باوجود داعش خراسان "نے کابل اور ملک کے دیگر حصوں میں حملے کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔"
داعش نے آٹھ مارچ کو کابل میں فوجی اسپتال پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 31 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس وقت افغانستان میں تقریباً 8400 امریکی فوجی تعینات ہیں جو افغان فورسز کو تربیت اور دہشت گردی کے خلاف معاونت فراہم کر رہے ہیں۔
یہ مشترکہ طور پر انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں شریک ہیں جب کہ امریکی جنگی جہاز بھی اب تک داعش کے ٹھکانوں کے خلاف سیکڑوں کارروائیاں کر چکے ہیں۔
ترجمان سالوون کا کہنا تھا کہ امریکی فورسز داعش سے نمٹنے کے لیے دہری جہت پر کام کر رہی ہے۔
"پہلا کلی طور پر امریکی انسداد دہشت گردی مشن ہے جسے آپریشن فریڈم کہتے ہیں جس میں ہم اپنے طور پر داعش خراسان کے خلاف خود کارروائی کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہم داعش پر افغان اسپیشل فورسز کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرتے ہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ فورسز کو خاص طور پر گزشتہ ماہ قابل ذکر کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔