افغان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے گوانتانامو بے میں فوجی حراست میں موجود آخری دو افغان قیدیوں میں سے ایک کو 15 برس بعد رہا کر دیا ہے۔
طالبان نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اسد اللہ ہارون کی رہائی طالبان اور واشنگٹن کے درمیان 'براہ راست اور مثبت بات چیت' کا نتیجہ ہے۔
رہا ہونے والے قیدی کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان حکام کے حوالے کیا گیا۔ دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر موجود ہے۔
طالبان کے دوحہ دفتر کے سربراہ اور اقوامِ متحدہ میں طالبان کے نامزد کردہ مستقل نمائندے سہیل شاہین نے کہا کہ 'یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔'
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسداللہ ہارون کا تعلق افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار سے ہے۔
سہیل شاہین نے کہا کہ وہ امریکہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ گوانتانامو جیل میں قید آخری افغان شہری کو بھی رہا کریں۔ اس کے ساتھ ہی ان تمام قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے جو وہاں شک کی بنیاد پر رکھے گئے ہیں۔
گوانتانامو بے میں موجود آخری افغان قیدی محمد رحیم ہیں، جن پر القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن سے قریبی تعلقات کا الزام ہے۔
ادھر امریکی محکمۂ دفاع نے بدھ کو کہا کہ اسد اللہ ہارون کی رہائی امریکی عدالت کے اس حکم کے بعد ہوئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ پینٹاگون کے پاس ہارون کو مزید قید میں رکھنے کا قانون جواز نہیں رہا۔
گزشتہ اکتوبر میں ایک امریکی عدالت نے قرار دیا تھا کہ اسداللہ ہارون کو غیرقانونی طور پر قید میں رکھا گیا ہے، یوں برسوں بغیر ٹرائل کے قید میں رہنے کے بعد ان کی گوانتانامو بے سے منتقلی کی راہ ہموار ہوئی تھی۔
محکمۂ دفاع نے اپنے بیان میں کہا کہ کریئر سول سرونٹس کی ایک جائزہ کمیٹی نے بھی گزشتہ اکتوبر میں یہ تجویز کیا تھا کہ اسد اللہ ہارون گوانتانامو بے سے منتقلی کے اہل ہیں۔
البتہ امریکی سینیٹرز کے ایک گروپ نے رواں ہفتے ایک قانون متعارف کرایا ہے جس کے تحت قیدیوں کی گوانتانامو بے سے افغانستان منتقلی روکی جائے گی۔
ری پبلکن سینیٹر مارکو روبیو نے اسداللہ ہارونکا قانونی نام استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اسداللہ ہارون گل الافغانی کو طالبان کے حوالے کرنا لاپروائی اور غیرذمہ دارانہ عمل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ''دہشت گرد تنظیم اب افغانستان کو کنٹرول کر رہی ہے اور ہم ہارون گل یا مستقبل میں رہا ہونے والے کسی اور قیدی کے بارے میں یہ نہیں لے سکتے کہ وہ جنگ کے میدان میں واپس نہیں آئے گا اور جان بوجھ کر امریکیوں یا دیگر معصوم شہریوں کو قتل نہیں کرے گا۔''
اسداللہ ہارون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں 2007 میں امریکی فورسز کی جانب سے جب پکڑا گیا تو وہ شہد کے تاجر کے طور پر کام کر رہے تھےجب کہ اس دوران امریکی فورسز افغانستان میں القاعدہ اور طالبان سے لڑ رہی تھیں۔
امریکہ نے الزام لگایا تھا کہ اسداللہ ہارون القاعدہ کا کوریئر تھا جو افغانستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند گروپ حزب اسلامی کے کمانڈر کے طور پر کام کرتا تھا جو اتحادی فورس کے خلاف حملوں میں معاونت کرتی تھی۔
ہارون نے حزب اسلامی کا رکن ہونے کا اعتراف کیا لیکن القاعدہ سے تعلق سے انکار کیا تھا۔