روس کی صحافی مرینا اووسیانیکووا نے جب ٹیلی ویژن کی براہِ راست نشریات میں یوکرین جنگ کی مذمت کی تو انہیں روس سے ردِ عمل کی توقع تو تھی لیکن باقی دنیا سے کچھ زیادہ نہیں تھی۔
اس واقعے کے تین ماہ بعد اب جلا وطنی کی زندگی گزارنے والی 43 سالہ مرینا ،اس خوف سے روس جانے اور اپنے بچوں سے ملنے سے ڈر رہی ہیں کہ انہیں سیدھا جیل بھیج دیا جائے گا۔ یہی نہیں بلکہ انہیں یوکرین اور مغربی ممالک کی طرف سے بھی بڑھتے ہوئے منفی ردِ عمل کا سامنا ہے۔
بعض ناقدین کا الزام ہے کہ وہ ایک جاسوس ہیں، جو اب بھی روس کے پروپیگنڈے کا حصہ ہیں ۔
مرینا نے جرمنی کے شہر برلن میں ’ویمنز فورم فار دی اکانومی اینڈ سوسائٹی نیٹ ورک‘ کی تقریب میں شرکت کے دوران خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’’میں معلومات کی اس جنگ کے درمیان پھنسی ہوئی ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ کہ ان کے لیے واقعی مشکل صورتِ حال ہے۔ان کے بقول’’ میں نے اپنے احتجاج کے بعد ایسی صورتِ حال کی بالکل توقع نہیں کی تھی۔‘‘
مارینا اووسیانیکووا کی والدہ کا تعلق روس اور والد کا یوکرین سے ہے۔وہ مارچ تک روس کے ایک ٹی وی چینل میں بطور ایڈیٹر کام کر رہی تھیں۔پھر اچانک وہ دنیا بھر میں شہ سرخیوں کا حصہ بنی گئیں، جب وہ شام کی خبروں کے پروگرام کے سیٹ پر ایک جنگ مخالف پوسٹر کے ساتھ پہنچیں، جس پر انگریزی میں جنگ مخالف الفاظ ’نو وار‘ لکھے ہوئے تھے۔
یہ روس میں، جہاں سرکاری میڈیا کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے، ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا ۔ مرینا کو حراست میں لے کر 14 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی اور 280 ڈالرز جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ۔لیکن نئے سخت قوانین کے تحت مرینا کو مزید قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس میں کئی برس کی قید کا خطرہ بھی شامل ہے۔
اس کیس نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی اور صدر ولادیمیر پوٹن کے یوکرین میں فوج بھیجنے کے تناظر میں روس میں آزادیٴ صحافت پر بھی خدشات میں اضافہ ہوا۔
مرینا کے احتجاج کے فوراً بعد مغرب میں ان کی بہادری کو سراہا گیا۔ یہاں تک کہ جرمنی کے اخبار ’ڈائی ویلٹ‘ میں انہیں فری لانس صحافی کے طور پر نوکری مل گئی ۔تاہم اب ’ڈائی ویلٹ‘ کی خاتون ترجمان نے ’اےایف پی‘ کو بتایا کہ مرینا اب اخبار میں نوکری نہیں کر رہیں۔ادارتی ذرائع کے مطابق یہ انتظام باہمی تعاون اور روزمرہ کے کام کے لحاظ سے مناسب نہیں تھا جب کہ فریقین کے لیے نیا بھی تھا۔
جون کے آغاز میں مرینا روسی میڈیا کے لیے جنگ کی رپورٹنگ کے ارادے سے یوکرین گئی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ روس کے لوگوں کو دکھانا چاہتی تھیں کہ یوکرین میں اصل میں ہو کیا رہا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ یوکرین کے صدر ولودو میر زیلنسکی کا انٹرویو کر لیتیں۔
’’روسی اب ایک ایسی صورتِ حال میں رہ رہے ہیں، جہاں ان کے پاس درست معلومات نہیں ہیں کیوں کہ روس میں اب ہر آزاد میڈیا کو بلاک کر دیا گیا ہے۔ وہاں صرف کریملن کی طرف سےفراہم کی گئی معلومات موجود ہیں۔‘‘
دوسری جانب مرینا کو ایسے لوگوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جنہیں شبہ ہے کہ وہ اب بھی خفیہ طور پر روس کے لیے کام کر رہی ہیں۔
’’سینٹر فار یورپین پالیسی اینالیسز‘ سے منسلک یوکرین صحافی اولگا توکاریوک نے ٹویٹ کیا کہ یوکرینیوں کو مرینا کے اس طرح اچانک بدل جانے پر بھروسہ نہیں ۔
انہوں نے مرینا کی سوشل میڈیا پوسٹس کو رائے کو غلط انداز سے متاثرکرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
مرینا نے اپنے بچپن کا ایک بڑا حصہ چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی میں گزارا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’’جب میں چھوٹی تھی تو گروزنی میں میرا گھر تباہ کر دیا گیا تھا۔ اس لیے میں یوکرینی خواتین اور بچوں کے احساسات کا اندازہ لگا سکتی ہوں۔‘‘
ان کے بقول ’’یوکرین کے لوگوں کو شاید یہ سمجھنے میں کچھ ماہ لگیں گے کہ روس میں ایسے لوگ بھی ہیں جو جنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔‘‘
جہاں تک مرینا کے مستقبل کا سوال ہے، وہ نئی ملازمت کی تلاش میں ہیں - البتہ فی الحال ان کے خیال میں روس واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’’میری دوست مجھ سے مذاق کرتی ہے کہ کیا تم مرنے کے لیے زہر کو ترجیح دو گی؟‘
(اس خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)