امریکہ کو افغانستان میں سن 2002 سے لیکر اب تک ، مبینہ طور پر 19 ارب ڈالر سے محروم ہونا پڑا ہے اور یہ رقوم، ایک رپورٹ کے مطابق، فراڈ اور ناجائز استعمال میں ضائع کی گئیں۔
یہ اعداد و شمار افغانستان میں تعمیر نو کے عمل کی نگرانی کرنے والے ادارے، سپیشل انسپیکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (سیگار) نے ایک نئی رپورٹ میں منگل کے روز جاری کئے ہیں۔
سیگار، افغانستان میں گزشتہ 19 سال سے جاری امریکہ کی طویل ترین جنگ میں واشنگٹن کی جانب سے کیے جانے والے تمام اخراجات کی نگرانی کرتا ہے۔
سیگار کا کہنا ہے کہ سن 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد، امریکی کانگریس نے افغانستان میں تعمیر نو کے پروگراموں کیلئے تقریباً 134 ارب ڈالر کی منظوری دی ہے۔
سیگار کی جانچ پڑتال میں بتایا گیا ہے کہ ادارے نے جاری ہونے والے کل بجٹ کے تقریباً 30 فیصد یعنی 63 بلین ڈالر کے اخراجات کا جائزہ لیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ کم و بیش 19 بلین ڈالر ضائع کیے گئے۔ اور سیگار کے مطابق صرف جنوری 2018 سے دسمبر 2019 تک تقریباً ایک اشاریہ آٹھ ارب ڈالر فراڈ اور ناجائز استعمال میں ضائع ہوئے۔
نگران ادارےسیگار کو یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں تعمیر نو کے لیے فنڈز کا جائزہ لے اور ایسی سفارشات مرتب کرے تاکہ اس رقم کو جنوبی ایشیا کے اس شورش زدہ ملک میں دیگر پروگراموں میں بہتر طور پر استعمال کیا جا سکے۔
سیگار کی تازہ ترین رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری ہوئی ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ افغان حکومت اور طالبان باغیوں پر زور دے رہی ہے کہ وہ وہاں جاری تنازعے کو مستقل طور پر ختم کرنے کیلئے براہ راست امن مذاکرات کے ذریعے کسی سیاسی حل تک پہنچیں۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان تاریخی بات چیت، ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے درمیان اس سال فروری میں طے پانے والے امن معاہدے کا نتیجہ ہے، جس کے تحت جنگ ختم کر کے مئی سن 2021 تک تمام امریکی افواج کو واپس لایا جائے۔
11 ستمبرکو امریکہ پپر ہونے والے حملوں کے بعد، امریکہ اور اتحادی افواج نے افغانستان پر چڑھائی کی تھی، اور وہاں طالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا، جو کہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ نیٹ ورک اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ دیے ہوئے تھی جو امریکہ پر حملوں کے اصل منصوبہ ساز تھے۔
افغان جنگ میں امریکہ کی 2400 سے زیادہ جانیں ضائع ہوئی ہیں اور اس جنگ پر واشنگٹن کو تقریباً ایک کھرب ڈالر کے اخراجات اٹھانا پڑے ہیں۔
سیگار نے افغانستان میں وسیع پیمانے پر جاری کرپشن کو روکنے کیلئے، افغان حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے اس پر مسلسل تنقید کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کرپشن، افغانستان میں عطیہ دینے والوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔
سیگار کی جانب سے سن 2020 کے اوائل میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کی انتظامیہ کرپشن کو جڑ سے ختم کرنے کی بجائے بین الاقوامی برادری کیلئے کاغذی کاروائی میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔
آئندہ ماہ جنیوا میں، جب افغان عہدیدار اور عطیہ دینے والے عالمی شراکت دار مستقبل میں افغانستان کیلئے اپنی امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیں گے تو وہاں انسدادِ کرپشن اور اصلاحات کے پروگرام بھی زیرِ غور آئیں گے۔