یہ ایک غیرمعمولی نوعیت کی کارروائی تھی۔
پہلی بار ایک امریکی ڈرون نے افغانستان کے ساتھ پاکستان کے لاقانون سرحدی علاقے سے باہر جا کر کارروائی کی، جس میں افغان طالبان لیڈر ہلاک ہوا، جو جنوب مغربی صوبہٴ بلوچستان کا علاقہ ہے۔
حکومتِ پاکستان کے ایک ملازم، عمیر خان نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’بہتر ہوتا کہ پاکستان نے ہی اُنھیں اپنے علاقے کے اندر نشانہ بنایا ہوتا۔ امریکہ کی جانب سے ہمارے ملک کے اندر ایسی کارروائی کرنا خلاف قانون بات ہے‘‘۔
پاکستان، صومالیہ، یمن میں امریکہ جہاں چاہتا ہے دہشت گرد اہداف کو نشانہ بناتا ہے۔
’دِی لانگ وار جرنل‘ کے مطابق، صرف پاکستان ہی میں، امریکہ نے سنہ 2008 سے اب تک 391 فضائی حملے کیے ہیں۔
سنہ 2002سے یمن میں امریکہ نے طالبان اور القاعدہ کے مجموعی طور پر 145 کمانڈروں کو ہدف بنایا ہے۔
اِن اعداد و شمار کی بنیاد اخباری رپورٹوں پر ہے۔
انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں کی جانے والی کارروائیوں کے بارے میں انسانی حقوق کے گروپ ایک طویل عرصے سے اعداد و شمار جاننے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، اور حالیہ دِنوں تک انتظامیہ اس کی تصدیق کرنے سے انکار کرتی آئی ہے۔
ریتا سائمن کا تعلق ’ہیومن رائٹس فرسٹ‘ سے ہے۔ بقول اُن کے، ’’ہم پر اعتماد کریں، ہمارا معیار بلند تر ہے۔ ہم اپنی بہترین کوششیں کرتے ہیں۔۔۔ ضرورت اس بات کی ہے مزید اعداد بتائے جائیں‘‘۔
اوباما انتظامیہ نے وعدے کے مطابق، ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں سنہ 2009 سے اب تک امریکی ڈرون حملوں میں لڑاکوں اور سولین کی ہلاکتوں کی تفصیل دی گئی ہے جو عراق، افغانستان اور شام جیسے علاقوں کے مخاصمانہ سرگرمیوں کے علاقوں سے باہر کے خطے ہیں۔
وائٹ ہاؤس پریس سکریٹری جوش ارنیسٹ نے مارچ میں اخباری نمائندوں کو بتایا تھا کہ ’’اس انتظامیہ اور پچھلی حکومت نے کافی عرصے تک اس بات کو بھی کھلے عام تسلیم نہیں کیا تھا کہ ایسا ہو رہا ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ حقیقت کہ اب ہم باقائدہ طور پر اور عام طرح سے یہ نتائج شائع کرتے ہیں، اور اِن کارروائیوں کے اثرات کے بارے میں جائزہ لیتے ہیں، میرے خیال میں یہ بات شفافیت کا راستہ اپنانے کی جانب ایک خاصی پیش رفت کا درجہ رکھتی ہے‘‘۔
انتظامیہ کیا کچھ جاری کرے گی اس کے لیے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن، حقوق سے وابستہ گروپ کہتے ہیں کہ گذشتہ سات برس کے دوران ہلاک ہونے والی سولین آبادی اور لڑاکوں کی تعداد ظاہر کرنا شفافیت کا غماز ہوگا۔
اس پالیسی کے کئی ایک ناقدین کا کہنا ہے کہ برعکس اس کے، وائٹ ہاؤس اہل کار یہ بھی بتائیں کہ اُنھوں نے یہ ڈیٹا کیسے اکٹھا کیا، پھر یہ کہ وہ ’لڑاکوں‘، ’بظاہر خطرہ‘ اور ’پکڑنے کا عمل‘۔۔ اِن کی تشریح کیسے کرتے ہیں۔۔ جب کہ اُنھیں امریکی ڈرون پالیسی کو باضابطہ بنانے کے لیے مزید اقدام کرنا ہوں گے۔
’ہیومن رائٹس فرسٹ‘ کے سائمن اس جانب دھیان مبذول کراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’گذشتہ برسوں کے دوران اُنھوں (انتظامیہ) نے جو سارا کام کیا ہے، جس میں معیار کا تعین کرنا، سرحدوں کی تعریف۔۔۔، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اِسے ایک باضابطہ شکل دیں، تاکہ ایسا نہ ہو کہ اوباما جنگ کو بغیر حد لاگو کیے لامتناہی سلسلے کے طور پر چھوڑ جائیں‘‘۔
اوباما نہیں چاہتے تھے کہ امریکہ نہ ختم ہونے والے فوجی تنازع کا شکار رہے، جس ضمن میں وہ اپنے عہدہٴ صدارت اور سابقہ انتظامیہ کا فرق واضح کرنے پر زور دیتے رہے ہیں، جب کہ امریکہ عراق اور افغانستان کی زمینی لڑائی میں ملوث رہا ہے۔
انسداد دہشت گردی پالیسی میں ڈرون کا متضاد کردار؟
اب تک ڈرون کی کارروائی نے، خاص طور پر حالیہ دِنوں کے دوران افغان طالبان کے امیر، ملا اختر منصور بہت سوں کو حیران کیا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم، حنا احمد کہتی ہیں کہ ’’یوایس ایڈ اور ترقیاتی فنڈ کے اعتبار سے امریکہ پاکستان کو بہت سی رقوم فراہم کرتا ہے۔ لیکن، پھر وہ (اس جیسا) عمل کرکے اُس ساری کاوش پر پانی پھیر دیتا ہے‘‘۔
دیگر حضرات انتظامیہ کی جانب سے اقدام کرنے کے انداز پر سوال اٹھاتے ہیں۔
سنیئر کونسلر، جان ہَنا کے بقول، ’’ہم (امریکی افواج) کو (افغانستان) میں طالبان کے خلاف جارحانہ طرز عمل اپنانے کیا جازت نہیں۔ وہ بم گرا کر پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی کررہی ہیں؛ اور پاکستان کے اندر طالبان قیادت کو نشانہ بنا رہی ہیں؛ یہ فیصلہ سازی کی عجب مثال ہے‘‘۔
ہَنا کلنٹن انتظامیہ اور جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ میں ایک اعلیٰ مشیر رہ چکے ہیں۔ بش انتظامیہ کی جانب سے گوانتانامو بے کے فوجی قیدخانے کی تشکیل کے معاملے پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔