امریکہ کی ایک بندوق ساز کمپنی نے پاکستان کو اسلحے کی فروخت کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اُسے خدشہ ہے کہ یہ ہتھیار امریکی فوجیوں کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہیں۔
ڈیزرٹ ٹیک‘ نامی گن ساز کمپنی کے بانی نیک ینگ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنی کمپنی کے صفحے پر کہا کہ اُُنھیں پاکستان کی جانب سے جدید ’سنائپر‘ رائفلز کی خریدای کے لیے رابطہ کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کی جانب سے ’جدید رائفلز‘ کے حصول کے معاہدے کی مالیت ڈیڑھ کروڑ ڈالر تھی۔
اُنھوں نے کہا ریاست یوٹا میں قائم اُن کی کمپنی کا سب سے ’’بڑا خوف‘‘ یہ ہے کہ یہ اسلحہ امریکی فوجیوں کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
مسٹر ینگ نے کہا کہ اُنھوں نے اپنی کمپنی ’’امریکیوں کے تحفظ کے لیے قائم کی تھی نا اُنھیں خطرے میں ڈالنے کے لیے‘‘۔
امریکی کمپنی کے سیلز مینجر ’مائیک ڈیوس‘ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ پاکستان کی صورت حال کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ’’اسلحہ کی فروخت درست نہیں ہو گا۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان نے جس ’رائفلز‘ کی خریدی میں دلچپسی ظاہر کی ہے، وہ نا صرف استعمال نہایت آسان ہے بلکہ اُس کے ذریعے 2,700 میٹر تک ہدف کو نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان امریکہ سمیت بین الاقوامی کمپنیوں سے اسلحہ حاصل کرتا رہا ہے لیکن ملک میں القاعدہ کے جنگجوؤں اور دیگر شدت پسند گروپوں کی موجودگی کے باعث صورت حال پیچیدہ ہو گئی ہے۔
ڈیزرٹ ٹیک کے مطابق کمپنی کا بنیادی اصول امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو محفوظ رکھنا ہے اور اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر پاکستان کو اس وقت اسلحہ فروخت نا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ڈیزرٹ ٹیک‘ نامی گن ساز کمپنی کے بانی نیک ینگ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنی کمپنی کے صفحے پر کہا کہ اُُنھیں پاکستان کی جانب سے جدید ’سنائپر‘ رائفلز کی خریدای کے لیے رابطہ کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کی جانب سے ’جدید رائفلز‘ کے حصول کے معاہدے کی مالیت ڈیڑھ کروڑ ڈالر تھی۔
اُنھوں نے کہا ریاست یوٹا میں قائم اُن کی کمپنی کا سب سے ’’بڑا خوف‘‘ یہ ہے کہ یہ اسلحہ امریکی فوجیوں کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
مسٹر ینگ نے کہا کہ اُنھوں نے اپنی کمپنی ’’امریکیوں کے تحفظ کے لیے قائم کی تھی نا اُنھیں خطرے میں ڈالنے کے لیے‘‘۔
امریکی کمپنی کے سیلز مینجر ’مائیک ڈیوس‘ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ پاکستان کی صورت حال کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ’’اسلحہ کی فروخت درست نہیں ہو گا۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان نے جس ’رائفلز‘ کی خریدی میں دلچپسی ظاہر کی ہے، وہ نا صرف استعمال نہایت آسان ہے بلکہ اُس کے ذریعے 2,700 میٹر تک ہدف کو نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان امریکہ سمیت بین الاقوامی کمپنیوں سے اسلحہ حاصل کرتا رہا ہے لیکن ملک میں القاعدہ کے جنگجوؤں اور دیگر شدت پسند گروپوں کی موجودگی کے باعث صورت حال پیچیدہ ہو گئی ہے۔
ڈیزرٹ ٹیک کے مطابق کمپنی کا بنیادی اصول امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو محفوظ رکھنا ہے اور اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر پاکستان کو اس وقت اسلحہ فروخت نا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔