جمعرات کے روز امریکی انتظامیہ نے امریکہ میں اندرون ملک پیدا ہونے والی پر تشدد انتہا پسندی کےمقابلے کی کوششوں میں اضافے پر عمل در آمد کے ایک منصوبے کا اعلان کیا ۔
اس 20 صفحاتی رپورٹ کو امریکہ میں متشدد انتہا پسندی کی روک تھا م کے لیے مقامی شراکت داروں کو مضبوط کرنے کے منصوبے کا نام دیا گیا ہے ۔ اس منصوبے کے تحت ملک بھر کی ان کمیونیٹیز میں جو متشدد انتہا پسندوں کا ہدف بن سکتی ہیں ، عہدے داروں کو زیادہ با اختیار بنانے اور ان کے ساتھ تعاون کے فروغ کے لیے مخصوص اقدامات کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔
صدر براک اوباما نے پر تشدد انتہا پسندی کے سد باب کے لیے گزشتہ اگست کے مہینے میں ایک مجموعی قومی حکمت عملی پر دستخط کیے تھے ۔ عمل درآمد کا یہ منصوبہ دہشت گردی کے انسداد کی اس وسیع تر حکمت عملی کے چھ ماہ بعد سامنے آیا ہے جس میں القاعدہ کے پیرو کاروں کی جانب سے خطرات کو زیر بحث لایا گیا تھا ، جن کے بارے میں نشاندہی کی گئی کہ وہ کبھی کبھی امریکی شہری ہوتے ہیں جو 2009 میں ٹکساس کے فوجی اڈے ، فورڈ ہڈ میں ہونےوالی فائرنگ جیسی دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں ۔
عمل درآمد کے اس منصوبے میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ، ا س کے ساتھیوں ، اور اس کے حامیوں سے تحریک پانے والی متشدد انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ ایک اولین ترجیح ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ دوسری قسم کی پر تشدد انتہا پسندی کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا اورہ یہ کہتے ہوئے کہ آزاد معاشروں کو کئی قسم کے متشدد انتہا پسندوں کا سامنا ہے، جولائی میں ناروے میں ہونےو الے حملوں کو ایک مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔
اس منصوبے میں ان کمیونٹیز کی نشاندہی کے اقدامات کی تفصیل دی گئی ہے، جنہیں انتہا پسند ریکروٹمنٹ اور انتہا پسندی پھیلانے کے لیے، ہدف بنا سکتے ہیں، اور ان اقدامات کو دہشت گردی کے خلاف وفاقی ، ریاستی اور مقامی کوششوں سے منسلک کیا گیا ہے ۔
پوری حکومت سے سینیر عہدےد اروں کی ایک ٹاسک فورس اس منصوبے کی مدد کرے گی اور قانون نافذ کرے والے عہدے داروں کی تربیت میں اضافہ کر دیا جائے گا۔
اس منصوبے میں پر تشدد انتہا پسندی کے پراپیگنڈے کے توڑ اور متشدد انتہا پسندی کے نظریات اور بیانات کے براہ راست چیلنج کی کمیونیٹیز کی اہلیت میں اضافے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے
ابتدائی رد عمل ہوم لینڈ سیکیورٹی اور حکومتی امور کے شریک چیئر ز، سوزن کولنز کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے میں مثبت اقدامات کیے گئے ہیں لیکن یہ کہ خطرے کی نوعیت کے پیش نظر مزیدا ور پہلے سے زیادہ تیر رفتاراقدامات کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے اس بارے میں مایوسی کا اظہار کیا کہ اوباما انتظامیہ نے کارروائیوں کو مربوط کرنےکے لیے کسی ایک واحد ادارے کو نامزد نہیں کیا ہے اور اسلام پرست انتہا پسندی کو ہمارا دشمن قرار دینے سے انکار کیا ہے ۔
صدر اوباما نے عمل در آمد کے منصوبے کے اجرا کے ساتھ کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے ۔ لیکن یہ دستاویز اگست میں ان کے اس بیان پر مشتمل ہے جس میں حکومت نے ایسی ہر قسم کی انتہا پسندی کی روک تھام کا عہد کیا تھا جس کے نتیجے میں تشدد پیش آئے قطع نظر اس کے اسے کون تحریک دیتا ہے ۔