امریکی ایوان نمائندگان نے صدر جو بائیڈن کا پیش کردہ 19 کھرب ڈالر کا کرونا امدادی پیکیج منظور کر لیا ہے۔ اس پیکج کے ذریعے کاروبار، مقامی حکومتوں اور عالمی وبا سے مالی مشکلات کا شکار ہونے والے شہریوں کی مدد کی جائے گی۔
قانون سازوں نے ہفتے کو پارٹی لائن پر ووٹ دیتے ہوئے یہ امدادی پیکیج 212 کے مقابلے میں 219 ووٹ سے منظور کیا۔
واضح رہے کہ امریکہ کے ایوانِ زیریں میں ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت ہے۔ 20 جنوری کو صدارت سنبھالنے کے بعد یہ قانون سازی میں صدر جو بائیڈن کی پہلی کامیابی ہے۔
کرونا امدادی پیکیج اب امریکہ کے 100 رکنی سینیٹ میں پیش ہو گا جہاں دونوں جماعتوں کے پاس 50، 50 ووٹ ہیں۔ البتہ کسی بھی صورت میں ووٹنگ برابر ہونے پر نائب صدر کاملا ہیرس ٹائی بریکر ووٹ کے ذریعے فیصلہ کر سکتی ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کا مؤقف تھا کہ امریکہ کی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے یہ امدادی پیکیج بہت ضروری ہے۔ امریکہ میں وبا کی وجہ سے اب تک پانچ لاکھ 10 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب ری پبلکن پارٹی کا مؤقف ہے کہ 1900 ارب ڈالرز کا امدادی پیکیج بہت بڑا پیکیج ہے۔
اس امدادی پیکیج کی مد میں جہاں ویکسین اور طبی اشیا کے اخراجات کو پورا کیا جائے گا۔ وہیں اکثر شہریوں کو 1400 ڈالر فی کس کی ادائیگی بھی کی جائے گی۔
اس پیکج کے ذریعے مقامی اور ریاستی حکومتوں کو ہنگامی معاشی امداد دی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ وبا کی وجہ سے معاشی طور پر مشکلات کے شکار کاروبار جیسے ریستوران اور ایئر لائنز انڈسٹری کو بھی مدد مل پائے گی۔
بل میں بے روزگاری کی مد میں ملنے والی رقوم اگست تک جاری رہیں گی اور کم آمدنی والے افراد، بچوں والے خاندانوں اور چھوٹے کاروباروں کو معاشی استحکام کے لیے مدد کی جائے گی۔
حتمی بل میں ڈیموکریٹس نے کم سے کم آمدنی کو 7.25 ڈالر فی گھنٹہ سے بڑھا کر 15 ڈالر فی گھنٹہ تک کرنے کی تجویز دی ہے۔ مگر اس بات کی امید کم ہی ہے کہ یہ تجویز سینیٹ سے پاس ہو سکے گی۔
جمعے کو ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے کہا کہ ڈیموکریٹس کم سے کم آمدن کو بڑھانے کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
ان کے بقول ’اگر یہ تجویز سینیٹ کے قواعد کی وجہ سے منظور نہ ہوئی۔ پھر بھی ہم کوشش کرتے رہیں گے۔ ہم تب تک نہیں رکیں گے جب تک کم سے کم آمدن 15 ڈالر فی گھنٹہ نہ ہو جائے۔
ڈیموکریٹس سینیٹ میں اس قانون کو بغیر کسی فلی بسٹر کے پاس کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یعنی انہیں سینیٹ میں اس بل کو پاس کرانے کے لیے متحد ہونے کی صورت میں ری پبلکن پارٹی کے کسی بھی ووٹ کی ضرورت نہیں رہے گی۔