امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان نے ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے عالمی معاہدے کو ایک جذباتی بحث کے بعد مسترد کر دیا۔
چونکہ سینیٹ پہلے ہی اس معاہدے سے متعلق قرارداد پر رائے شماری کا راستہ روک چکی ہے اس لیے ایوان نمائندگان میں رائے شماری کی حیثیت علامتی ہے۔ اس کا مقصد صدر اوباما اور ان کی انتظامیہ کو مخالفت کا پیغام پہنچانا ہے۔ صدر اوباما اور ان کی انتظامیہ نے گزشتہ 18 ماہ کے دوران اس معاہدے تک پہنچنے کے لیے شدید محنت کی۔
ایوان نمائندگان نے جمعے کو ایران کے جوہری معاہدے کو منظور کرنے کی قرارداد پر رائے شماری کی جو متوقع طور پر 162 کے مقابلے میں 269 ووٹوں سے مسترد کر دی گئی۔
ایک ریپبلکن رکن کے سوا باقی سب نے اس معاہدے کے خلاف ووٹ دیا۔ پچیس ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان نے بھی اس معاہدے کے خلاف ووٹ دیا۔
گیارہ ستمبر کے واقعے کی چودھویں برسی کے موقع پر ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بوئینر نے کہا کہ ’’اس برے معاہدے کو روکنے کے لیے ہماری جنگ ابھی شروع ہوئی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ صدر کانگریس اور امریکی عوام کی مرضی کے خلاف یہ معاہدہ لاگو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’’ہماری تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی اقدام جس کے قومی سلامتی کے لیے اتنے زیادہ مضمرات ہوں، اسے اتنی کم حمایت کے ساتھ مسلط کیا گیا ہو۔ آج گیارہ ستمبر ہے۔ ہم امریکی عوام کو مایوس نہیں کر سکتے۔‘‘
وائٹ ہاؤس کے جانب سے دیے گئے ایک تحریری بیان میں صدر اوباما نے کہا کہ اگر ایوان نمائندگان کے ارکان نے معاہدے کا مطالعہ کیا ہوتا تو ان کی طرف سے اس کے حق میں ووٹ دینے کا زیادہ امکان ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ہمیں اس معاہدے کے نفاذ کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ایوان نے اس معاہدے کی شدید مخالفت کا اظہار کرنے کے لیے جوہری معاہدے سے متعلق تین قراردادوں پر رائے شماری کی۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ قراردادیں سینیٹ میں پیش کی جائیں گی یا نہیں۔
جمعرات کو سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان نے اس معاہدے کو مسترد کرنے کی قراداد کو رائے شماری کے لیے پیش ہونے سے روک دیا تھا۔ وائٹ ہاؤس نے سینیٹ کے اس اقدام کو ’’تاریخی‘‘ قرار دیا تھا اور عالمی سلامتی اور سفارتکاری کی فتح قرار دیا تھا۔