امریکی وزیرِ خارجہ کل پیر کے روز 2010ء کی انسانوں کی تجارت کی رپورٹ جاری کریں گی۔ ہر سال امریکی محکمۂ خارجہ یہ رپورٹ جاری کرتا ہے اور اس میں انسانوں کی تجارت کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کے لحاظ سے ملکوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ اس سال پہلی مرتبہ درجہ بندی کی اس فہرست میں امریکہ بھی شامل ہو گا۔
امریکہ میں انسانی حقوق اور نفاذِ قانون کے گروپ جو انسانوں کی تجارت کے کاروبار کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں، کہتے ہیں کہ انسانوں کی غلامی صرف بیرونی ملکوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ واشنگٹن سمیت ، امریکہ کے ہر بڑے شہر میں عورتوں اور مردوں کی اسمگلنگ کا کاروبار جاری ہے۔ بعض سے جبری مشقت لی جاتی ہے اور بعض کو جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔
امریکہ کے ہربڑے شہر میں، ہر روز انسانی غلامی کا شکار ہونے والوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ بریڈلے مائلز انسانوں کی تجارت کے خلاف جدوجہد کرنے والی تنظیم پولارس پراجیکٹ سے وابستہ ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض افراد کو مالدار لوگوں کے گھروں میں اور ریستورانوں میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور بعض سے، خصوصاً عورتوں سے جبراً جسم فروشی کرائی جاتی ہے ۔ بریڈلے مائلز کے مطابق ’’انسانوں کی تجارت امریکہ میں بڑا سنگین مسئلہ ہے۔ یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ہم ان جگہوں کے اندر گئے ہیں، ہم نے ان عورتوں کے ساتھ کام کیا ہے جو اس عذاب میں گرفتار ہیں‘‘۔
پولارس پراجیکٹ کے تحت ایک ٹیلیفون ہاٹ لائن چلتی ہے جس پر انسانوں کی تجارت کا شکار ہونے والے لوگ مدد کے لیے فون کر سکتے ہیں۔ اس ہاٹ لائن پر پورے ملک سے کالز آتی ہیں۔ بریڈلے مائلز کہتے ہیں کہ ’’ہمیں ٹیکسس سے کالز آتی ہیں، کیلی فورنیا سے کالز آتی ہیں، نیو یارک سے، فلوریڈا سے اور واشنگٹن ڈی سی سے۔ واشنگٹن ان پانچ شہروں میں شامل ہے جہاں سے ہمیں سب سے زیادہ کالز آتی ہیں‘‘۔
انسانوں کی تجارت کا شکار ہونے والے لوگوں کی مدد کرنے والے ایک اور گروپ کا نام انوسینٹس ایٹ رسک ہے۔ اس گروپ کی بانی، ڈیبوراہ سگمنڈ کہتی ہیں کہ انسانوں کی تجارت کا شکار ہونے والے بیشتر لوگ اقتصادی طور پر پسماندہ ملکوں سے آتے ہیں اور انہیں بہتر زندگی کا سبز باغ دکھا کرامریکہ آنے کے لیے پھانس لیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ لوگ سوچتے ہیں کہ اس طرح وہ امریکہ آ سکتےہیں اور انہیں اچھی سی ملازمت مِل جائے گی۔ اس طرح انہیں بے وقوف بنانا آسان ہو جاتا ہے‘‘۔
بعض عورتوں کو مساج پارلرز میں کام کے بہانے جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایف بی آئی کے ٹم وٹمین امریکہ میں انسانوں کی تجارت کے مسئلے کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بیرونی ملکوں میں پہلا نمبر میکسیکو کا ہے۔ ہمارے پاس جو کیس آتے ہیں ان میں بیس فیصد میکسیکو سے لائے ہوئے لوگوں کے ہوتےہیں۔
امریکہ کا دارالحکومت واشنگٹن بھی اس لعنت سے مبرا نہیں ہے ۔ پولارس پراجیکٹ کے مطابق یہاں انسانوں کی تجارت کا شکار ہونے والوں میں بعض امریکی شہری ہیں اور بعض جنوبی کوریا، چین اور لاطینی امریکہ کےملکوں کی عورتیں ہیں۔ ایف بی آئی کے ٹم وٹمین کہتے ہیں کہ اگر کسی کو جھوٹے وعدوں پر ، مثال کے طور پر ، کوریا سے امریکہ لایا جاتا ہے اور پھر اسے جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے تو اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ جس مقام پر جسم فروشی ہو رہی ہے، وہ امریکہ میں کورین کمیونٹی کے اندر ہی ہوگا۔
دی ہیومن اسمگلنگ اینڈ ٹریفکنگ سینٹرنے 21 مہینے تک اس مسئلے پر ریسرچ کی۔ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق انسانی تجارت کے 83 فیصد واقعات کا تعلق جسم فروشی سے ہوتا ہے۔انسانی غلامی کے دوسرے کیسوں میں لوگوں کو گھریلو ملازموں یا زرعی مزدوروں کی طرح کام کرنے پر مجبور کرنا شامل ہے ۔
ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ اسمگلرز اکثر اپنا شکار بننے والے لوگوں کو دھمکیاں دیتے ہیں اور ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ اپنا قرض اتار نہیں سکتے۔ ایف بی آئی کے ٹم وٹمین کا کہنا ہے کہ ’’عام طور سے ان لوگوں کے گھرانوں کو ان کے ملکوں میں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اس طرح اسمگل کیا ہوا شخص مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ امریکہ میں خدمات فراہم کرتا رہے یا مزدوری کرتا رہے۔ایک عام سی دھمکی یہ ہوتی ہے کہ اگر تم ہمیں چھوڑ کر گئے تو ہم امیگریشن کو مطلع کر دیں گے، تم گرفتار ہو جاؤ گے اور طویل عرصے تک جیل میں رہو گے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ مدد دستیاب ہے۔ انسانی تجارت کا شکار ہونے والے لوگوں کو بعض اوقات اسپیشل ویزا مِل سکتا ہے جس کے تحت وہ چار سال تک امریکہ میں رہ سکتے ہیں۔ اس دوران وہ مستقل رہائش کی درخواست دے سکتےہیں۔ لیکن ان میں سے بیشتر لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں، انہیں انگریزی نہیں آتی اورانہیں قانونی کارروائی کا ڈر ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسانوں کی تجارت کا شکار ہونے والے اکثر لوگ مدد نہیں مانگتے۔