شہریت اور امیگریشن کے امریکی محکمے 'یونائٹیڈ اسٹیٹس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز' (یو ایس سی آئی ایس) کے دفاتر میں ویزوں اور امیگریشن سے متعلق درخواستوں کو نمٹانے کے عمل میں تاخیر بین الاقوامی طلبہ کے لیے ان کے امیگریشن اسٹیٹس کو مشکلات سے دوچار کر رہی ہے۔
وائس آف امریکہ نے کچھ طلبہ سے گفتگو کی ہے اور ان کی درخواست پر ان کے اصل نام صیغہ راز میں رکھتے ہوئے فرضی ناموں کے ساتھ ان کے مسائل بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
ستائیس سال کی چینی شہری ایما امید سے ہیں اور اپنے شوہر کے ساتھ نیویارک میں رہتی ہیں۔ ایمونول کی عمر 23 سال، مراکش سے تعلق ہے اور ورجینیا میں مقیم ہیں۔
اکتیس سالہ پیٹر بھی چین سے 2014 میں ترکِ وطن کر کے امریکہ آئے تھے اور وہ ہیوسٹن، ٹیکساس میں مقیم ہیں۔ ان تمام طلبہ کی کہانی اور مسائل ایک جیسے ہیں۔
ویزا اور امیگریشن کے عمل میں تاخیر ان کے لیے نوکریوں کی پیش کش قبول کرنے کی اہلیت کو متاثر کر رہی ہے کیوں کہ بعض کمپنیاں آپشنل پریکٹیکل ٹریننگ (او پی ٹی) کی درخواست کی رسید طلب کرتے ہیں۔
یہ رسید طلبہ کو اپنی تعلیم سے متعلقہ شعبے میں ایک سال تک کام کرنے کی عارضی اجازت دیتی ہے۔
یہ رسیدی نوٹس عام طور پر 'یو ایس سی آئی ایس' میں درخواست پہنچنے کے بعد ہفتوں کے اندر بھجوا دیا جاتا ہے۔
یہ وہ ابتدائی مرحلہ ہے جو امیگریشن سے متعلق درخواست پر غوروخوض سے بھی پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ اس عمل کے بغیر امیگریشن کا ادارہ کسی درخواست دہندہ کا نام اور پٹیشن بھی اپنے کمپیوٹرائزڈ سسٹم میں حاصل نہیں کر سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایما نے کہا کہ "میں ہر روز ذہنی دباؤ کی کیفیت سے گزرتی ہوں۔"
ایما نے 2020 میں نیویارک یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور 'او پی ٹی' کے لیے اکتوبر میں درخواست دی۔
امریکہ میں ایف ون ویزا پر موجود غیر ملکی طلبہ گریجویشن سے 90 دن قبل او پی ٹی کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
ایما بتاتی ہیں کہ "جب مجھے نوکری کی پیش کش ہوتی ہے تو میں خود کو پرسکون محسوس نہیں کرتی۔ کیوں کہ میرے پاس رسید تک نہیں ہوتی اور نوکری دینے والا واقعی نہیں جانتا کہ دوسری طرف چل کیا رہا ہے۔"
وائس آف امریکہ نے کم و بیش اسی صورتِ حال سے دوچار 10 طلبہ کے انٹرویوز کیے ہیں اور ایسے چیٹ رومز بھی دیکھے ہیں جہاں سیکڑوں طلبہ 'یو ایس سی آئی ایس سے' رسیدی نوٹس میں تاخیر پر بات کر رہے ہوتے ہیں۔
سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھیمیٹکس (STEM) میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ جن کی او پی ٹی کے لیے منظوری ہو چکی ہے، تمام مطلوبہ شرائط پر پوار اترنے کی صورت میں دو سال کی توسیع کے اہل ہیں۔
وہ افراد جو توسیع کے لیے درخواست دے رہے ہوں ان کو ورک اتھورائزیشن کے لیے پہلی او پی ٹی کے خاتمے سے نوے دن پہلے درخواست دینا پڑتی ہے۔
جیسیکا بیم نیو یارک میں امیگریشن کی وکیل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر طلبہ پہلے والے ایمپلائر یا آجر کے ساتھ ہی کام جاری رکھتے ہیں تو اتھورائزیشن کارڈ کے زائد المیعاد ہونے کے ایک سو اسی دن (چھ ماہ) بعد تک بھی کام جاری رکھ سکتے ہیں اور اپنے کیس پر فیصلے کا انتظار کر سکتے ہیں۔
I-20 ایک دستاویز ہے جو امریکہ کی حکومت کے منظور کردہ ادارے جاری کرتے ہیں۔ یہ دستاویز ظاہر کرتی ہے کہ طالبِ علم کو فل ٹائم تعلیمی پروگرام میں داخل کر لیا گیا ہے اور یہ کہ طالبِ علم نے امریکہ میں رہنے کے لیے درکار وسائل ظاہر کر دیے ہیں۔
پہلی بار درخواست دینے والے طالبِ علم
لیکن ایما اور پیٹر ایمانوئل جیسے طلبہ جو پہلی بار 'او پی ٹی' کے لیے درخواست دے رہے ہیں، ان کے پاس ورک پرمٹ نہیں ہوتا اس طرح ان کے پاس کوئی اضافی وقت بھی نہیں ہوتا۔
ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹوریٹ کے طالبِ علم پیٹر کہتے ہیں کہ ان کی درخواست ڈیلس لاک باکس 28 اکتوبر کو وصول ہو گئی تھی لیکن انہیں اب تک رسیدی نوٹس نہیں ملا ہے۔
اُن کے بقول "میں نے چند ہفتے قبل ہی اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔ میں قابلِ تجدید توانائی کے شعبے میں کام کر رہا ہوں۔ مجھے ہیوسٹن میں ابھی ابھی نوکری ملی ہے۔ میرے آجر کو سب علم ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ میں ان کے ساتھ بہت شفاف طریقے سے کام کرتا ہوں۔"
امریکہ میں جائے قیام کی مناسبت سے طلبہ کی او پی ٹی درخواستیں فینکس، ایری زونا یا ٹیکساس کے شہر ڈیلس بھجوائی جاتی ہیں۔
درخواستوں میں اضافہ
مالی سال 2020 میں 'یو ایس سی آئی ایس' کے لاک باکسز میں 95 لاکھ درخواستیں موصول ہوئیں۔
ڈائن رش، امریکن لائرز ایسوسی ایشن میں حکومت کے ساتھ تعلقات کے شعبے کی ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رسیدی نوٹس میں تاخیر ہر شعبے میں درخواست دینے والوں کو متاثر کر رہی ہے۔
بین الاقوامی طلبہ میں کئی ایسے درخواست گزار اس تاخیر سے متاثر ہوئے ہیں اور ان کا مستقبل غیر واضح ہے۔
امیگریشن لائر جیسیکا بیم کا کہنا ہے کہ وہ طلبہ کو تجویز کریں گی کہ وہ اپنی درخواست سرٹیفائیڈ میل کے ذریعے بھجوائیں تاکہ ان کے پاس کم از کم یہ ثبوت ہو کہ ان کی درخواست بروقت لاک باکس میں پہنچ گئی ہے۔
امیگریشن کے امریکی محکمے 'یو ایس سی آئی ایس' کے ترجمان نے ایک ای میل میں وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ادارے کے جواب میں تاخیر کی وجہ کرونا کی عالمی وبا کے ساتھ ساتھ امیگریشن بینیفٹس کی درخواستوں میں اضافہ ہے۔
آٹھ جنوری کو یو ایس سی آئی ایس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وفاقی ملازمین اضافی وقت دے رہے ہیں اور ادارہ اپنے کام کے بوجھ اور جلد کیس نمٹانے کے لیے کام کر رہا ہے۔