رسائی کے لنکس

اضافی ٹیکس کے امریکی اقدام کا جواب دیں گے: چین


امریکہ اور چین 10 ماہ سے تجارتی مفاہمت کے لیے کوشاں ہیں۔ (فائل فوٹو)
امریکہ اور چین 10 ماہ سے تجارتی مفاہمت کے لیے کوشاں ہیں۔ (فائل فوٹو)

امریکہ نے چین سے درآمد کیے جانے والے تجارتی سامان پر محصولات کی شرح 10 فی صد سے بڑھا کر 25 فی صد کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے جب کہ چین نے امریکی فیصلے کا جواب دینے کا اعلان کیا ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے پر عمل درآمد ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ اور چین کے درمیان مجوزہ تجارتی معاہدے پر اتفاقِ رائے کے لیے واشنگٹن میں مذاکرات بھی جاری ہیں۔

چین کے نائب وزیر اعظم لی ہی نے امریکی نمائندوں سے جمعرات کو ڈیڑھ گھنٹے تک مذاکرات کیے۔ دنیا کی دونوں بڑی معاشی قوتیں 10 ماہ سے تجارتی مفاہمت کے لیے کوشاں ہیں۔

چین کی وزارتِ تجارت نے امریکہ کی جانب درآمدی اشیا پر محصولات میں اضافے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان کے مطابق چین امریکہ کے اس فیصلے کا مناسب جواب دے گا۔

اضافی ٹیکس کا اطلاق جمعے سے ہو گیا ہے جس کے بعد چین سے درآمد کیے جانے والے 200 ارب ڈالر کے تجارتی سامان پر 10 کے بجائے 25 فی صد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔

چین کے نائب وزیر اعظم مذاکرات کے لئے واشنگٹن میں موجود ہیں۔
چین کے نائب وزیر اعظم مذاکرات کے لئے واشنگٹن میں موجود ہیں۔

صدر ٹرمپ یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ 200 ارب ڈالر مالیت کی اشیا کے علاوہ بھی چین سے آنے والے درآمدی سامان پر اضافی ٹیکس وصول کیا جائے گا۔

اس سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ باہمی تجارت سے متعلق اتفاق رائے سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔

بدھ کو امریکی ریاست فلوریڈا میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے چین پر امریکہ کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ توڑنے کا الزام لگاتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر باہمی تجارت پر دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت نہ ہوئی تو اس کا خمیازہ چین کو بھگتنا پڑے گا۔

دنیا کی دونوں بڑی معیشتوں کے درمیان جولائی 2018ء سے تجارتی جنگ جاری ہے جو صدر ٹرمپ کے اس مطالبے سے شروع ہوئی تھی کہ چین اپنی معیشت میں ایسی اصلاحات کرے جس سے امریکی کمپنیوں کے حقوقِ دانش محفوظ بنانے اور چینی منڈیوں تک ان کی رسائی آسان بنانے میں مدد مل سکے۔

گو کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافی معاملات پر بات چیت کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن ایک دوسرے کی برآمدات پر عائد کیے جانے والے ٹیرف کے سبب نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ عالمی معیشت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔

حالیہ چند ہفتوں کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تنازعات پر کسی معاہدے پر اتفاقِ رائے کی امیدیں روشن ہوئی تھیں لیکن گزشتہ ہفتے مجوزہ معاہدے کی تحریر پر اختلافات کے باعث معاملہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے

XS
SM
MD
LG