امریکہ میں آج کل لوگ مہنگائی سے پریشان ہیں۔ آخری بار 1970 کے عشرے میں جب افراط ِزر کی لہر آئی تھی تو قیمتیں اور اجرتیں بہت بڑھ گئی تھیں۔ اس بار اگرچہ سرکاری طور پر افراط ِ زرکی شرح اب بھی نسبتاً کم ہے، لیکن اجرتیں ایک جگہ ٹھر گئی ہیں اور کھانے پینے اور ایندھن جیسی عام ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے.
اشوریہ اور الوک شرما اپنے دو بچوں کے ساتھ دس برس پہلے بھارت سے آ کر امریکہ میں آباد ہوئے تھے۔ وہ اب امریکی شہری بن چکے ہیں۔ بیشتر امریکیوں کی طرح افراطِ زر کی وجہ سے ان کی مالی حالت بھی پتلی ہے۔ عام استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں سالانہ دو اعشاریہ سات فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے جب کہ فی گھنٹہ کام کرنے کی اجرتیں ایک فیصد سے بھی کم بڑھی ہیں۔ الوک شرما کہتے ہیں کہ اس مشکل کا کوئی حل نکالنا پڑ ے گا۔ ’’افراطِ زر سے دہرا نقصان ہو رہا ہے۔ ایک طرف تو معقول تنخواہوں والے جاب نہیں ملتے اور پھر سالانہ اضافہ بھی نہیں ہوتا۔ اور دوسری طرف آپ کو ہرچیز کی زیادہ قیمت ادا کرنی ہوتی ہے‘‘۔
ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ توانائی اور غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے افراطِ زر بڑھ رہا ہے اور امریکی سوچ رہے ہیں کہ اس مشکل کا حل کیسے نکالیں۔ شرما کا گھرانہ واشنگٹن ڈی سی کے شمال میں ایک نواحی بستی میں رہتا ہے۔ وہ کمپیوٹر کے شعبے میں کام کرتے ہیں اور کام پر آنے جانے کے لیے روزانہ 65 کلو میٹر گاڑی چلاتے ہیں۔ گذشتہ سال کے دوران پیٹرول کی قیمتیں تقریباً 26 سینٹ فی لٹر بڑھ گئی ہیں۔
الوک شرما کہتے ہیں کہ ان کے گھرانے کے بجٹ میں یہ خاصا بڑا خرچ ہے۔ ’’ہمارا پیڑول کا خرچ 40 سے 50 فیصد بڑھ گیا ہے‘‘۔
شرما کا گھرانہ سبزی خور ہے۔ وہ بڑی مقدار میں تازہ سبزیاں کھاتے ہیں اور خوب دودھ پیتے ہیں۔ اشوریہ شرما کہتی ہیں کہ دودھ کی قیمت دگنی ہو گئی ہے۔ ’’تقریباً سال بھر پہلے دودھ دو ڈالر فی گیلن مل جاتا تھا۔ اب یہ چار ڈالر فی گیلن ہو گیا ہے‘‘۔
ان کا اندازہ ہے کہ گذشتہ چھہ مہینوں میں ان کے کھانے پینے کے اخراجات پچیس سے تیس فیصد زیادہ ہو گئے ہیں۔ الوک شرما کہتے ہیں کہ اگر قیمتیں اسی طرح بڑھتی رہیں، تو ان کے گھرانے کو خرچ کم کرنا ہوگا اور اپنا طرز زندگی بدلنا ہو گا۔ ’’ہمیں اب بھی یہی عادت پڑی ہوئی ہے کہ ہم جو کچھ چاہتے ہیں، بچے جو کچھ مانگتے ہیں، ہم خرید لیتے ہیں، ہمیں آہستہ آہستہ نسبتاً صرف سستی چیزیں خریدنے کا فیصلہ کرنا ہوگا‘‘۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ چین ، بھارت اور برازیل جیسے ملکوں میں متوسط طبقہ وسیع ہوتا جا رہا ہے ۔ ان ملکوں میں لوگ زیادہ وسائل استعمال کر رہے ہیں اور اس کی وجہ سے ساری دنیا میں قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔بعض دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ روس جیسے ملکوں میں خشک سالی ، مشرقِ وسطیٰ میں ہنگامے اور عالمی سطح پر ریفائنری کی گنجائش کم ہونے کی وجہ سے غذائی اشیاء اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہر معاشیات ڈینی لیپیزجیر(Danny Leipziger) کہتے ہیں کہ یہ تمام عوامل قیمتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ’’
میرے خیال میں دنیا بھر میں افراطِ زر میں بے تحاشا اضافے کا سبب چین کا متوسط طبقہ نہیں ہے۔ لیکن بعض منڈیاں ایسی ضرور ہوتی ہیں جن میں افراط زر کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ آپ ان منڈیوں میں قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ کیا اس طرح ساری دنیا میں افراط زر پیدا ہو جائے گا؟ شاید نہیں‘‘۔
ڈینی کہتے ہیں کہ لمبی مدت کے دوران تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا کیوں کہ تیل کی مقدار محدود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فی الحال ، امریکہ میں رہنے والے گھرانوں کو بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹنا ہوگا۔ کیوں کہ امریکی معیشت شدید کساد بازاری سے باہر نکل رہی ہے، اس لیئے سود کی شرح بڑھانے سے، جو افراط ِ زور پر قابو پانے کا عام طریقہ ہے، حالات اور زیادہ خراب ہو سکتے ہیں ۔ ’’متوسط طبقہ بری طرح متاثر ہو اہے۔ ہم یہ نہیں چاہیں گے کہ پالیسی ساز افراط ِ زور کو کنٹرول کرنے کے لیئے ضرورت سے زیادہ سخت اقدامات کریں کیوں کہ اس طرح امریکہ میں اقتصادی بحالی کا عمل تعطل کا شکار ہو سکتا ہے ۔ ایسی پالیسی دانشمندی کے خلاف ہو گی‘‘۔
الوک شرما کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ان کے گھرانے کو اخراجات پورے کرنے کے لیئے اپنی بچت میں سے کچھ نکالنا پڑے۔ وہ خرچ کم کرنے کے لیئے بھارت کے دورے کم کر دیں گے، اور کام پر جانے کے لیئے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر آنے جانے کا انتظام کریں گے۔ امید یہی ہے کہ چند برسوں میں ان کے گھرانے کی آمدنی بڑھ جائے گی اور ان کی پریشانی دور ہو جائے گی۔