امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اومان میں بالمشافیٰ بات چیت کی، جس کے محض دو ہفتے بعدجوہری سمجھوتے کے لیے دی گئی ڈیڈلائن ختم ہونے والی ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی پالیسی سربراہ، کیتھرین ایشٹن بھی اتوار کے روز ہونے والے اِن مذاکرات میں حصہ لے رہی ہیں۔
کیری اور ظریف نے ہاتھ ملایا، لیکن میڈیا کو کوئی بیان نہیں دیا، ایسے میں جب وہ اومان کے دارلحکومت مسقط میں بات چیت کے لیے تیاری میں تھے۔
ظریف نے، جنھوں نے اتوار کی اِس ملاقات سے قبل بات چیت میں کہا تھا کہ مغرب کی طرف سے لگائی جانے والی تعزیرات ایران کے جوہری معاملے پر جاری تعطل کا حل فراہم نہیں کرتیں۔
بقول اُن کے، ’مغرب کو یہ اہم بات سمجھ لینی چاہیئے کہ پابندیاں اس معاملے کے میں معاون ثابت نہیں ہوئیں۔ تعزیرات اس مسئلے کا ایک انتہائی اہم حصہ ہیں، یہ غیرقانونی نوعیت کی ہیں۔ اِنھیں اٹھا لیا جانا چاہیئے۔ اِن سے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ مغرب کے لیے تعزیرات کا ایک ہی نتیجہ یہ نکلا ہے، اور وہ یہ کہ سینٹری فیوجز تقریباً 19000 ہیں‘۔
ظریف نے کہا ہے کہ جس بات پر نااتفاقی ہے وہ یہ کہ ایران کتنا یورینئیم افزودہ کر سکتا ہے اور تعزیرات کو کس طرح اٹھایا جانا چاہیئے۔
ہفتے کو بیجنگ روانگی سے قبل، کیری نے کہا کہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر پروگرام پر سمجھوتہ طے کرنے کے لیے بات چیت میں ’کافی رخنہ‘ حائل ہے۔
اُنھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جوہری معاملے پر بات چیت دوسرے تنازعات سے علیحدہ ہے، جس میں داعش کے خلاف لڑائی میں ایران کا ممکنہ تعاون شامل ہے۔
ہفتے کو بیجنگ روانگی سے قبل، کیری نے کہا کہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر پروگرام پر سمجھوتہ طے کرنے کے لیے بات چیت میں ’اصل رخنہ‘ حائل ہے۔
اُنھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جوہری معاملے پر بات چیت دوسرے تنازعات سے علیحدہ ہے، جس میں داعش کے خلاف لڑائی میں ایران کا ممکنہ تعاون شامل ہے۔