امریکی صدربراک اوباما ایران کی کلیدی تیل کی برآمدات پر تعزیرات عائد کرنے کے اقدام کے حوالے سے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، یہ دیکھتے ہوئے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کافی مقدارمیں موجود ہے، اس لیے اگر امریکی اتحادی ایران کے تیل کی خریداری روک دیں تو اُن کے لیے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
صدر اوبامانے یہ فیصلہ جمعےکے روز کیا جس کا اطلاق جون کےاواخر تک ہو جائے گا، اور جس کے تحت اُن غیر ملکی بینکوں کے خلاف تعزیرات لاگو کی جائیں گی جو تیل سے متعلق ایران کے مرکزی بینک سےمالی لین دین کریں گے۔
یہ امریکی اقدام ایرانی تیل کی خریداری کےمجوزہ یورپی پابندی سے مطابقت رکھتا ہے، جس کا مقصد ایران پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ اپنے متنازعہ جوہری ہتھیار بنانے کا پروگرام ترک کردے۔ ایران اِس بات پر مصر ہے کہ اُس کا نیوکلیئر پروگرام شہری مقاصد کے لیے ہے۔
امریکی قانون کی رو سے مسٹر اوباما کو جمعے تک یہ فیصلہ کرنا تھا، آیا عالمی سطح پر تیل کی دستیابی وافر مقدار میں ہے اور قیمتیں قابلِ قبول درجے کے اندر ہیں، تاکہ ایرانی تیل کے خریدار اپنی درآمدات میں قابلِ قدر کٹوتی لا سکیں۔
ایران دنیا کا تیل برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے، جو روزانہ تیل کے ڈھائی ملین بیرل بیرون ملک بھیجتا ہے۔ اُس کے خریداروں میں چین، جنوبی کوریا، بھارت، فرانس، برطانیہ، اسپین، یونان اور اٹلی شامل ہیں۔ ایک بیان میں امریکی صدر نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی کافی رسد موجود ہے۔
لیکن، حالیہ مہینوں کے دوران خام تیل کی قیمتیں بڑھی ہیں ، اور امریکہ میں تیل کی قیمتیں اب تک کی بلند سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ اس وقت کئی مقامات پر، ایک لٹِر تیل کی قیمت بلند ترین سطح، یعنی چار ڈالر فی گیلن سے زائد ہے۔
حالانکہ، یہ قیمت دنیا کے دیگر حصوں میں فروخت ہونے والے تیل کے مقابلے میں کافی کم ہے، یہ معاملہ رواں انتخابی سال میں مسٹر اوباما کے لیے ایک سیاسی مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ وہ اِس بات کا قریبی مشاہدہ کرتے رہیں گے کہ عالمی مارکیٹ میں ایرانی تیل کی خریداری گھٹنے کا سلسلہ جاری رہے۔
امریکہ پہلے ہی یورپی یونین کے ممالک اور جاپان کی اُن 10کمپنیوں کے لیے چھوٹ کا اعلان کرچکا ہے، کیونکہ وہ ایرانی تیل کی خرید اری میں کمی کر چکے ہیں۔ ایرانی تیل پر لاگو ہونے والا یورپی یونین کا نیا اقدام جولائی سے شروع ہوگا۔