امریکہ نے X کی صنفی پہچان کے ساتھ اپنا پہلا پاسپورٹ جاری کیا ہے, جو ان لوگوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے، جن کی شناخت مرد یا عورت نہیں ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ اسے توقع ہے کہ اگلے سال اس صنفی پہچان کے ساتھ بہت سے پاسپورٹ جاری ہوں گے۔
ایسے افراد جن کی صنفی شناخت مرد یا عورت کے طور پر نہیں ہوتی، انہیں بالعموم 'ایل جی بی ٹی کیو' کہا جاتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں دوسروں کے مساوی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
امریکہ میں ایل جی بی ٹی کیو کے حقوق کے لیے خصوصی سفارتی نمائندہ جیسکا اسٹرن نے اس اقدام کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جشن منانے کا لمحہ ہے، کیونکہ سرکاری دستاویزات میں انہیں ایک 'زندہ حقیقت' کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس اقدام سے صنفی شناخت میں توسیع ہوئی ہے اور اب عورت اور مرد کے ساتھ ساتھ انہیں بھی تسلیم شدہ پہچان مل گئی ہے۔
اسٹرن کا کہنا تھا کہ، "جب کوئی شخص شناختی دستاویزات حاصل کرتا ہے جس سے اس کی حقیقی شناخت کی عکاسی ہوتی ہو تو وہ زیادہ عزت اور احترام کے ساتھ زندگی گذارتا ہے۔"
'ایکس' کی شناخت کے ساتھ جاری ہونے والے پہلے پاسپورٹ کے متعلق یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ پاسپورٹ کس کو جاری کیا گیا ہے۔ محکمے کے ایک عہدے دار نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ آیا مذکورہ پاسپورٹ کولوراڈو کی ایک رہائشی ڈانا زیم کے لیے تھا جو اس کے حصول کے لیے 2015 سے محکمے کے ساتھ قانونی جنگ لڑ رہی ہیں۔ عہدے دار کا کہنا تھا کہ محکمہ شخصی رازداری کے خدشات کے پیش نظر پاسپورٹ کی انفرادی درخواستوں کے متعلق کچھ نہیں بتاتا۔
محکمے نے ڈانا زیم کو پاسپورٹ کی درخواست پر پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ انہوں نے صنفی شناخت کے خانوں پر، جو مرد کے لیے 'ایم' اور عورت کے لیے 'ایف' ہے، انٹرسیکس لکھا۔ اور ایک الگ خط میں محکمے سے درخواست کی کہ انہیں پاسپورٹ 'ایکس' کی صنفی شناخت کے ساتھ جاری کیا جائے۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق پیدائش کے وقت زیم کی جسمانی صنفی شناخت غیر واضح تھی، لیکن ان کی پرورش ایک لڑکے کے طور پر کی گئی۔ بعد ازاں ان کے کئی آپریشن بھی ہوئے، لیکن وہ مکمل طور پر مرد نہ بن سکے۔
زیم نے بحریہ میں ایک مرد کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دیں۔ بعد میں وہ ریاست کولوراڈو کی اسٹیٹ یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے اور خود کو انہوں نے مرد یا عورت کی بجائے انٹر سیکس کی شناخت کے ساتھ پیش کیا اور ٹرانس جینڈر کے حقوق کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔
اسی دوران انہیں میکسیکو میں انٹرسیکس انٹرنیشنل آرگنائزیشن میں شرکت کی دعوت ملی۔ انہوں نے اپنے پاسپورٹ کے لیے درخواست جمع کرائی، لیکن صنفی شناخت کے خانے میں 'ایم' یا 'ایف' کی بجائے انٹرسیکس لکھنے کے باعث انکار کر دیا گیا۔
اس وقت محکمہ نے کہا تھا کہ وہ اس پر کام کر رہا ہے اور صنفی شناخت کے لیے ایک اور خانہ بنانے کی منظوری اور اس پر عمل درآمد میں وقت لگے گا۔
لیکن اب محکمے نے پاسپورٹ کے لیے درخواست دینے والوں کو عورت اور مرد سے ہٹ کر بھی اپنی صنفی شناخت کے انتخاب کی اجازت دے دی ہے اور اس کے لیے درخواست گزار کو کسی اضافی دستاویز کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
اب امریکہ بھی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، نیپال اور کینیڈا سمیت ان چند ممالک میں شامل ہو گیا ہے، جو اپنے شہریوں کو اپنے پاسپورٹ پر مرد یا عورت کے علاوہ کوئی اور جنس درج کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
اسٹرن کا کہنا ہے کہ وہ امید کرتی ہیں کہ اس سے دوسری حکومتوں کو بھی اس سلسلے میں ترغیب دینے میں مدد ملے گی اور ان کے انسانی حقوق کی توثیق اور اس پر عمل درآمد کی راہ ہموار ہو گی۔