رسائی کے لنکس

امریکی یہودیوں کا عرب ممالک کی صورت حال پر ملا جلا ردعمل


امریکی یہودیوں کا عرب ممالک کی صورت حال پر ملا جلا ردعمل
امریکی یہودیوں کا عرب ممالک کی صورت حال پر ملا جلا ردعمل

امریکی یہودی عرب ملکوں میں اور خاص طور سے مصر میں جمہوریت کی جدو جہد کو تشویش اور امید کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ اس ہفتے کے شروع میں بعض یہودی لیڈروں نے صدر براک اوباما کے ساتھ ایک پرائیویٹ میٹنگ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

واشنگٹن میں سیاسی لحاظ سے بائیں بازو کے یہودیوں کی ایک تنظیم کا نام جے اسٹریٹ ہے۔ اس تنظیم کی بیشتر توجہ اسرائیلی بستیوں کی مخالفت پر رہتی ہے لیکن اس سال کے اجتماع میں بہت سے لوگوں نے عرب ملکوں میں جمہوریت کی جدو جہد کا خیر مقدم کیا ہے ۔ لین گلٹلیب (Lynn Glttlieb) خاتون یہودی ربی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب انھوں نے سابق صدر حسنی مبارک کا تختہ الٹے جانے پر مصریوں کو جشن مناتے دیکھا تو وفورجذبات سے ان کے آنسو نکل آئے’’میں سمجھتی ہوں کہ ان لوگوں میں بڑی جرأت ہے۔ وہ ایسے حالات میں جمہوریت کا مطالبہ کر رہے ہیں جب ان کے دوست ان کے ساتھی اور گھرانے کے لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں‘‘۔

ایک اور رابی مائیکل لرنر ایک یہودی رسالے کے ایڈیٹر ہیں۔ مصری انقلاب کے شروع میں انھوں نے الجزیرہ کی ویب سائٹ پر ایک اداریہ لکھا جس کا عنوان تھا مصر کی جدو جہد کے لیئے یہودیوں کی دعائیں۔ لرنر کہتے ہیں کہ یہودی دوسرے لوگوں کی جدو جہد ِ آزادی کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ انجیل مقدس کے مطابق، غلامی سے انکی اپنی آزادی کی کہانی مصر سے شروع ہوئی تھی۔ ’’جب ہم مصریوں کی جدو جہد اور دوسرے عرب ملکوں کی جدو جہد کہ حمایت کرتے ہیں تو ہمارے خیال میں یہ دنیا میں سب کی آزادی کے لیئے اہم قدم ہوتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو یہودیوں کی سلامتی اور اسرائیل کی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہے ‘‘۔

حالیہ برسوں کے دوران اسرائیل کے بارے میں جے اسٹریٹ کے خیالات اہم ہوتے جا رہےہیں۔ لیکن یہ گروپ اب بھی نسبتاً چھوٹا ہےاور پچاس سب سے بڑی یہودی تنظیموں کے گروپ کا رکن نہیں ہے۔ اس کے ارکان کہتے ہیں کہ وہ منگل کے روز وائٹ ہاؤس میں صدر براک اوباما سے ملے۔

امریکی یہودیوں کے بہت سے لیڈر کہتےہیں کہ شروع میں ان کا خیال تھا کہ مسٹر مبارک امن کے لیے سینہ سپر ہیں۔ لیکن امریکہ اسرائیل فرینڈ شپ لیگ کے کینیھت بائیلکن کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر ان کی حوصلہ افزائی ہوئی کہ احتجاج کرنے والے مصریوں نے خود کو مذہبی انتہا پسندی سے دور رکھا اور اسرائیل کے بارے میں نفرت کا اظہار نہیں کیا۔ ’’اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا مصر میں اور دوسرے مقامات پر لوگ معاشرے کو بہتر بنانے، مغربیت لانے اور جمہوریت کو پھیلانے پر زور دیں گے یا یہاں بھی وہی ہو گا جو ایران میں ہواتھا‘‘۔

ایران میں 1979 کے انقلاب کے نتیجے میں ایک اسلامی مذہبی حکومت قائم ہوئی جس نے اسرائیل کو تباہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ بہت سے یہودیوں کو مصر کے بارے میں خاص طور سے تشویش ہے کیوں کہ اسرائیل کے ساتھ اس کے امن معاہدے پر اسی سال دستخط ہوئے تھے جب ایران میں انقلاب آیا تھا۔

لیکن زانسٹ آرگنائزیش آف امریکہ کے صدر مارٹن کیلن کہتے ہیں کہ امن معاہدے کے باوجود مصر میں اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف کافی نفرت پائی جاتی ہے۔ ان کے خیال میں مصر جمہوریت کے لیے تیار نہیں ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہاں ووٹنگ کے نتیجے میں انتہا پسند اقتدار میں آجائیں۔ ’’اگر آپ کے معاشرے میں بہت زیادہ نفرت موجود ہے تو انتخابات میں برے لوگ ہی منتخب ہوں گے‘‘۔

مصر کی فوج نے کہا ہے کہ وہ امن معاہدے کو قائم رکھے گی۔ لیکن کیلن کہتے ہیں مستقبل کی مصری سویلین حکومت کو معاہدے کو ختم کرنے سے روکنے کے لیے امریکہ کو مصر کی امداد ختم کرنے کی اور اسرائیل کو جزیرہ نما سنائے پر دوبارہ قبضہ کرنے کی دھمکی دینی چاہیئے۔

سیاسی طور پر امریکہ کے ساٹھ لاکھ یہودیوں میں اس سوال پر اختلاف رہا ہے کہ اسرائیل کی سیکورٹی کے لیئے بہترین لائحہ عمل کیا ہے ۔ اب، بائیں بازو کے یہودی، عربوں میں جمہوری بیداری پر تکیہ کیے ہوئے ہیں جب کہ دائیں بازو کے یہودی علاقے میں تبدیلیوں کی لہر پر محتاط انداز سے نظر رکھے ہوئے ہیں

XS
SM
MD
LG