قاہرہ کی سڑکوں پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور جھڑپوں سے مشرق ِ وسطیٰ کا اسٹریٹیجک اور سیاسی نقشہ تبدیل ہورہا ہے۔ اسرائیل کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ایسے عرب ملکوں اور حکومتوں سے گھرا ہوا ہے جن کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ مصر کے صدر حسنی مبارک کے اس فیصلے سے کہ تین عشروں تک اقتدار میں رہنے کے بعد وہ آئندہ انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے، مصر اور اسرائیل کے تعلقات متاثر ہو سکتےہیں ۔ان تعلقات کی بنیاد 1979ء کا امن سمجھوتہ ہے۔
اسرائیل کے صدر Shimon Peres نے کہا ہےکہ ‘‘ہمارے دلوں میں ہمیشہ صدر مبارک کے لیے بڑا احترام رہا ہے اور اب بھی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انھوں نے جو کچھ کیا وہ سب ٹھیک تھا، لیکن ایک چیز کے لیے ہم سب ان کے شکر گزار ہیں۔ انھوں نے مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم رکھا’’۔
اسرائیل نے علاقائی استحکام کے لیے مصر کے ساتھ تیس سالہ پرانے امن سمجھوتے پر انحصار کیا ہے۔ لیکن اب وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کو بڑے غیر یقینی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔اردن کے بادشاہ عبداللہ نے عوامی دباؤ کے تحت اپنی کابینہ کو برطرف کر دیا ہے۔ مغربی کنارے میں، فلسطینی صدر محمود عباس نے اپنے وزرا اور دوسرے عہدے داروں کو حکم دیا ہے کہ وہ مصر کی صورت حال کے بارے میں کچھ نہ کہیں۔
تل ابیب میں انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی اسٹڈیز کے سینیئر تجزیہ کار،مارک ہیلر بتاتے ہیں کہ ‘‘اسرائیل کی سب سے بڑی تشویش کیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی انتہا پسند، جارحانہ، اسلامی حکومت مصر میں اقتدار سنبھال لے، اور دوسری چیزوں کے علاوہ، اپنی جارحیت اور نفرت کا نشانہ اسرائیل کو بنائے’’۔
Tzvia Fogel اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل ہیں اور آج کل فوجی تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتےہیں کہ اس امکان کے پیشِ نظر کہ صدر مبارک مصر کی سیاسی قیادت کو خیر باد کہہ دیں گے، اسرائیلی فوج کو اپنے اہم ترین علاقائی اسٹریٹیجک تعلق پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فوج لازمی طور پر مصر کے ساتھ امن سمجھوتہ ختم کر دے گی، لیکن اس کی توجہ اسرائیل کی سرحدوں پر اسلام پسند گروپوں کے اثر و رسوخ پر ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کا یہ ارتکاز ایسی چیز ہے جس پر ہماری نیندیں اڑ جانا قدرتی بات ہے’’۔
اسرائیل کے ایک سابق وزیرِ دفاع، Binyamin Ben Eliezer نے امریکہ پر تنقید کی ہے کہ وہ مصر میں تیزی سے حکومت کی تبدیلی پر زور دے رہا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘‘میرے خیال میں امریکی یہ نہیں سمجھتے کہ انھوں نے کتنی بڑی ٹریجڈی میں ہاتھ بٹایا ہے کیوں کہ انھوں نے مشرق وسطیٰ میں امن کے عمل کو خطرے میں ڈال دیا ہے’’ ۔
گذشتہ پانچ برسوں کے دوران ہونے والے واقعات کی وجہ سے اسرائیلی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پورا علاقہ ان کے خلاف ہوتا جا رہا ہے۔ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کا اسلام پسند گروپ حماس بر سرِ اقتدار ہے، لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھ مضبوط ہوئے ہیں اور علاقے میں ایران کا اثر و رسوخ موجود ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر مصر میں انتہا پسند مسلمان بر سرِ اقتدار آ گئے، تو اسرائیل خود کو کئی عشروں کے بعد اتنی بری طرح گھرا ہوا محسوس کرے گا ۔
انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز کے مارک ہیلر کے مطابق ‘‘بدترین صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ مصر میں ایک انتہا پسند سنّی فورس کا غلبہ ہو اور ایک انتہا پسند شیعہ فورس ایران میں بر سرِ اقتدار ہو، اور ان دونوں کے درمیان یہ مقابلہ جاری ہو کہ دونوں میں سے کون اسرائیل اور امریکہ کے خلاف زیادہ موئثر اور سرگرم ہے’’ ۔ انھوں نے کہا کہ اس دور میں جب عرب دنیا میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے، اسرائیل کو پوری کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ خود بالکل سامنے نہ آئے، کیوں کہ وہ چاہے کچھ ہی کہے یا کرے، اس پر تنقید ہی کی جائے گی اور نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔