رسائی کے لنکس

امریکہ کی حوثیوں کے خلاف مزید کارروائی


12 جنوری 2024 کو برطانیہ کی وزارت دفاع کی طرف سے فراہم کردہ اس تصویر میں ایک رائل ایئر فورس کا ٹائفون طیارہ یمن میں اہداف کو نشانہ بنانے کے بعد قبرص میں آر اے ایف اکروتیری کے اڈے پر واپس آ رہا ہے۔
12 جنوری 2024 کو برطانیہ کی وزارت دفاع کی طرف سے فراہم کردہ اس تصویر میں ایک رائل ایئر فورس کا ٹائفون طیارہ یمن میں اہداف کو نشانہ بنانے کے بعد قبرص میں آر اے ایف اکروتیری کے اڈے پر واپس آ رہا ہے۔

امریکہ نے ہفتے کے روز یمن میں حوثیوں کے خلاف کارروائی جاری رکھتے ہوئے ایک اور ہدف کو نشانہ بنایا ہے۔ یو ایس سنٹرل کمانڈ کے مطابق اس نے جنگی بحری جہاز گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائر 'یو ایس ایس کارنی' سے تازہ ترین حملہ کیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ وہ حوثیوں کے خلاف اس سے قبل کیے گئے فضائی حملوں میں حوثیوں کی حملہ کرنے کی صلاحیت کو ہونے والے نقصان سے مطمئن نہیں تھے۔

البتہ تازہ ترین کارروائی میں امریکہ نے ایک راڈار کو تباہ کرنے کے لیے متعدد ٹوماہاک لینڈ اٹیک میزائل فائر کیے ہیں۔ اس راڈار کو سمندری ٹریفک کے لیے ایک مسلسل خطرہ سمجھا جا رہا تھا۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے حوثیوں کے خلاف یہ کارروائی بحیرۂ احمر اور خلیجِ عدن سے گزرنے والے تجارتی جہازوں کو حوثیوں کی جانب سے نقصان پہنچانے کے واقعات کے جواب میں کی جا رہی ہے۔

امریکی اور برطانوی افواج نے یمن میں حوثی ٹھکانوں کے خلاف جمعرات کو درجنوں حملے کیے تھے۔

امریکی فوجی حکام نے تصدیق کی ہے کہ حوثی عسکریت پسندوں نے جمعے کی صبح ایک اینٹی شپ بیلسٹک میزائل داغا۔ تاہم، یہ میزائل کسی جہاز کو نشانہ نہ بنا سکا۔

امریکی اور برطانوی حکام نے جمعہ کو امید ظاہر کی تھی کہ جمعرات کو دیر گئے ابتدائی حملے، جنہیں اب حملوں کی دو لہروں کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے، کامیاب رہے۔

ایک امریکی دفاعی اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ ابتدائی جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمعرات کو دیر گئے درست حملوں کی پہلی لہر نے حوثیوں کی مزید حملے کرنے کی صلاحیت کو کم کر دیا ہے۔

اہلکار نے آپریشنل تفصیلات پر بات کرنے کے لیے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ حملوں کا مزید جامع جائزہ ابھی جاری ہے۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بحیرۂ احمر میں حوثیوں کے ڈرون حملے کے جواب میں منگل کو فضائی حملوں کی منظوری دی تھی۔

ساتھ ہی وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ امریکہ یمن کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا لیکن حوثیوں کے خلاف مزید کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی کے مطابق صدر جو بائیڈن جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ میں اضافے کو روکنے کی کوشش ہے۔

امریکہ کے مطابق حوثیوں نے نومبر کے وسط سے بحیرۂ احمر میں کم از کم 28 حملے کیے ہیں جن سے 50 سے زیادہ ممالک کے شہری، کارگو اور جہاز متاثر ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغی یمن کے ایک حصے پر قابض ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے بین الاقوامی جہازوں کے خلاف حملے اسرائیل کی فلسطینی علاقے غزہ میں جاری جنگ کے خلاف ہیں۔

ملیشیا گروپ نے کہا تھا کہ وہ اپنے حملے اس وقت تک نہیں روکیں گے جب تک اسرائیل غزہ میں اپنی کارروائی نہیں روک دیتا۔

گزشتہ ہفتے امریکہ اور 12 اتحادیوں نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں حوثیوں کو بحیرۂ احمر میں جہاز رانی پر حملے جاری رکھنے کی صورت میں غیر متعینہ نتائج سے خبردار کیا تھا۔

یہ بیان دسمبر کے وسط میں امریکہ، برطانیہ اور تقریباً 20 دیگر ممالک کی طرف سے بحری جہازوں کو حوثی حملوں سے بچانے کے لیے "آپریشن پراسپرٹی گارڈین" کے آغاز کے بعد دیا گیا۔

آپریشن پراسپرٹی گارڈین کے آغاز کے بعد سے کم از کم 1,500 جہاز آبنائے باب المندب سے بحفاظت گزر چکے ہیں جو بحیرۂ احمر کو خلیجِ عدن سے ملاتا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بدھ کو ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں حوثیوں سے فوری طور پر حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ البتہ روس نے اس قرار داد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔

ماسکو نے جمعے کو سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا جب کہ سفیر واسیلی نیبنزیا نے یمن میں امریکی-برطانوی حملوں کو "دوسرے ملک کے خلاف صریح مسلح جارحیت" قرار دیا۔

روسی سفیر نے دلیل دی کہ یہ حملے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کی شرائط پر پورا نہیں اترتے۔

اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ یہ حملے بین الاقوامی قانون اور آرٹیکل 51 کے مطابق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ واشنگٹن اس طرح کے حملوں کو ہلکے سے نہیں لیتا اور یہ حملے صرف اس وقت کیے گئے ہیں جب حوثیوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے غیر فوجی آپشنز ناکافی ثابت ہوئے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG