امریکی حکام نے مختلف شہروں میں غیر قانونی طور پر قیام پذیر تارکینِ وطن کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارنا شروع کردیے ہیں۔ البتہ تارکینِ وطن کے خلاف آپریشن کا دائرہ اب تک خاصا محدود ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر قانونی طور پر مقیم تارکینِ وطن کے خلاف اتوار سے کریک ڈاون کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ ماہ بھی انہوں نے ٹوئٹر پر اسی نوعیت کے کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا لیکن بعدازاں اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔
اس سے قبل ایک امریکی عدالت نے حکم دیا تھا کہ حالیہ دنوں میں 10 شہروں میں آنے والے سیکڑوں تارکینِ وطن خاندانوں کو واپس بھیجا جائے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق تارکینِ وطن اور ان کے وکلا بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ سے متعلق پہلے ہی چوکنا تھے۔ لیکن حکام کی جانب سے چند شہروں میں محدود پیمانے پر گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔
امریکہ میں سرحدوں کے نگران ادارے 'امیگریشن اینڈ کسٹم انفورسمنٹ' (آئی سی ای) کے قائم مقام ڈائریکٹر میٹ البینی کے مطابق ایسے افراد جنہیں عدالت کی جانب سے بے دخل کرنے کے احکامات ہیں، ان کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائی کی جا رہی ہے۔
تارکینِ وطن کے حقوق کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم کی ڈپٹی لیگل ڈائریکٹر میری بیور کا کہنا ہے کہ جنوبی شہر ایٹلانٹا میں تارکینِ وطن کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کی اطلاعات نہیں۔
انہوں نے کہا کہ تارکین وطن اور ان کے خاندان ملک بھر میں چھپتے پھر رہے ہیں اور وہ خوفزدہ ہیں اور اس قسم کی کارروائیاں دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہیں۔
امریکن امیگریشن کونسل کے مطابق انہیں بھی اب تک اپنے پاس رجسٹرڈ کسی تارکِ وطن کی گرفتاری کی اطلاع نہیں ملی۔ تنظیم کے مطابق اس کے وکلا کی ٹیم تارکِ وطن خاندانوں کی قانونی معاونت کے لیے تیار ہے۔
یاد رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو واپس ان کے آبائی ملکوں میں بھیجنے پر زور دیا تھا اور اس مقصد کے لیے وہ میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر سمیت مختلف آپشنز کے لیے کوششیں کرچکے ہیں جس پر انہیں سخت مخالفت کا بھی سامنا ہے۔