امریکی قانون ساز ٹرمپ انتظامیہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس بات کا اعلان کیا جائے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمان آبادی کے خلاف نسل کشی ہو رہی ہے، جو اکثریتی بودھ ملک ہے جسے برما بھی کہا جاتا ہے، جس کے حالیہ برسوں کے دوران امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
دریں اثنا، امریکی محکمہٴ خارجہ کی جانب سے مزید تادیبی کارروائی کے امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے، جن میں اُن افراد اور حلقوں کے خلاف معاشی تعزیرات عائد کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے جو روہنگیا مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں اور زیادتیوں میں ملوث ہیں۔
امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوب مشرقی ایشیا، پیٹرک مرفی نے منگل کے روز ایک بریفنگ میں محتاط الفاظ استعمال کرتے ہوئے، ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’جو صورت حال ہم نے ریاستِ رخائن کے اندر دیکھی ہے، وہ سنگین خلاف ورزیوں کا ایک مجموعہ ہے‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’صورتِ حال کو درست طور پر بیان کرنے کے لیے الفاظ کا بہتر چناؤ ضروری ہوگا‘‘۔ وہ اس سوال کا جواب دے رہے تھے آیا امریکہ روہنگیا کے خلاف تشدد کی کارروائی کو ’’قتل عام‘‘ یا ’’نسل کشی‘‘ قرار دینے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
امریکی سفیر اسکاٹ مرسیل کے ہمراہ، مرفی نے حالیہ دِنوں شمالی رخائن کی ریاست کے کچھ علاقوں کا سفر کیا، اور صورتِ حال کا بی المشافہ جائزہ لیا۔
ایسے میں جب امریکی محکمہٴ خارجہ نے یہ بات طے کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ جن لوگوں نے زیادتیاں کی ہیں یا کر رہے ہیں اُنھیں سزا دی جانی چاہیئے؛ اعلیٰ اہل کاروں نے منگل کے روز یہ کہنے سے احتراز کیا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف اقدامات کو ’’نسل کشی‘‘ قرار دیا جائے، جب تک کہ جائزہ مکمل نہیں کر لیا جاتا۔
سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کی سماعت کے دوران اپنے کلمات میں، امریکی معاون وزیر خارجہ برائے آبادی، مہاجرین اور تارکینِ وطن، مارک اسٹوریلا نے کہا ہے کہ ’’میں یہ نہیں کہہ سکتا، آج یوں نہیں کہہ سکتا، لیکن حالت ایسی ہے کہ یہ بدترین قسم کی زیادتیوں کی سی حالت ہے، جو اب تک میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں دیکھی ہیں‘‘۔ اُنھوں نے یہ بات اُس وقت کہی جب قانون سازوں نے اُن سے پوچھا آیا اُن کی نظر میں روہنگیا کے خلاف جاری صورت حال کو نسل کشی قرار دیں گے۔
سینیٹر بین کارڈن، جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے اور وہ میری لینڈ سے ہیں، کہا ہے کہ ’’یہ نسل کشی ہے۔ یہ بالکل واضح ہے۔ ہاں، میرے خیال میں یہ قتل عام ہے‘‘۔