امریکہ میں ایوان زیریں یعنی کانگریس اور ایوانِ بالا یعنی سینٹ کے وسط مدتی انتخابات 2 نومبر کو ہونے والے ہیں۔
حکمران ڈیموکریٹس سینیٹ میں اپنی برتری برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جبکہ اپوزیشن ری پبلکن پارٹی کو امید ہے کہ وہ کانگریس میں اپنی برتری براقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ سینیٹ میں بھی اکثریتی پارٹی بن جائے گی۔
ایسے میں، ریاست ورجینیا، جو ماضی میں ریڈ یعنی ری پبلکن سٹیٹ تھی، اب ایک سونگ سٹیٹ بن چکی ہے۔ 2008 ء کے انتخاب میں صدر اوباما نے یہاں (ورجینیا) سے 52.7 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ لیکن، 2010ء میں ورجینیا کے گورنر کی ریس میں ری پبلکن، باب میکڈانلڈ نے معرکہ مار لیا اور ڈیموکریٹ ٹیری مالِف ہار گئے۔ 2012ء کے انتخاب میں ایک بار پھر صدر اوباما اس ریاست سے جیتے، لیکن ووٹوں کی شرح کم ہو کر 51.16 فیصد پر آ گئی۔
2013 میں باب مکڈانلڈ کرپشن کے الزامات کے بعد مستعفی ہوئے تو ڈیموکریٹ ٹیری مکالِف گورنر کا الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
2014ء کے وسط مدتی انتخاب کے لیے ریاست ورجینیا سے سینٹ کے لیے ڈیموکریٹ سینٹر مارک وانر کے مقابلے میں ری پبلکن ایڈ گلسپی انتخاب لڑ رہے ہیں۔
گلسپی ورجینا میں مقیم تارکینِ وطن اور مذہبی اقلیتوں کے ووٹ پر توجہ دے رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں، انہوں نے ورجنیا کے مسلمان ووٹروں تک اپنا پیغام پہنچایا ہے۔
2012ء کے اعداد و شمار کے مطابق، ریاست ورجینیا میں باون لاکھ 16 ہزار 252 ووٹر ہیں۔
امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی سول رائٹس تنظیم، ’کیئر‘ کے مطابق، ان میں سے 60 ہزار مسلمان رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔
سنہ 2013 میں ڈیموکریٹ ٹیری مکالِف نے ری پبلکن کن کو چنیلی کو 54 ہزار 870 ووٹوں سے ہرایا تھا۔
کیئر کی رپورٹ کے مطابق، اس الیکشن میں 78 فیصد مسلمانوں نے ووٹ ڈالا جن میں سے 68 فیصد نے ڈیموکریٹ ٹیری مکالِف کو ووٹ دیا۔
ان اعداد و شمار کو مدِنظر رکھا جائے تو یقیناً مسلمان ووٹ ری پبلکن پارٹی کے لیے اہم بن جاتا ہے۔ ایڈ گلسپی کہتے ہیں کہ وہ ورجینیا کے تمام باسیوں کی نمائندگی کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
بقول اُن کے، ’میں نے اس مہم میں ورجینیا کی مسلمان کمیونٹی سے متواتر ملاقاتیں کی ہیں، جن میں مجھے یہ لگا کہ وہ میرے پیغام سے متفق ہیں۔ جیسے روزگار کے مواقعے، ہاتھ میں آنے والی تنخواہ میں اضافہ، غربت کا خاتمہ، صحت کی سہولیات پر آنے والے اخراجات میں کمی اور پیٹرول کی قیمت کو نیچے لانا شامل ہے۔‘
ری پبلکن پارٹی کی قدامت پسند پہچان کی وجہ سے مسلمانوں سمیت دیگر تارکینِ وطن یا اقلیتیں ڈیموکریٹس کی حمایت کرتی ہیں۔ لیکن، بعض مسلمان ووٹروں کے مطابق، ڈیموکریٹس کی ہم جنس پرستوں کی شادی اور اسقاطِ حمل کے بارے میں آزاد پالیسی اسلامی تعلیمات اور اصولوں کے خلاف ہے۔
اکتوبر 2014ء میں ریاست ورجینیا میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ کیونکہ، گورنر ٹیری مکالِف کی کابینہ کے اٹارنی جنرل نے ریاستی عدالت میں امریکہ کی سپریم کورٹ کی جانب سے ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حق دیے جانے کے خلاف دائر درخوست کی پیروی روک دی۔
یہ درخواست ریپبلکن گورنر باب مکڈانلڈ کی کابینہ کے اٹارنی جنرل کن کوچنیلی نے دائر کی تھی۔ یاد رہے کہ 2013ء میں گورنر کے الیکشن میں ٹیری مکالِف نے کن کوچنیلی کو شکست دی تھی۔
ایڈ گلسپی کہتے ہیں کہ ان کی نظر میں شادی ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان ہوتی ہے اور وفاقی حکومت کو اس معاملے میں دخل نہیں دینا چاہیئے۔ جبکہ ان کے مطابق، اسقاطِ حمل کی اجازت ایسی صورت میں دی جائے جب ماں کی زندگی کو خطرہ ہو یا خاتون جنسی زیادتی کی وجہ سے حاملہ ہوئی ہو۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا ورجینیا کے 60 ہزار مسلمان ووٹر ان دو معاملات کو مدِنظر رکھ کر ووٹ دیں گے۔ لیکن، ری پبلکن پارٹی کو میٹرو پولٹن علاقوں میں بسنے والے ان ووٹروں کی اہمیت کا اندازہ ضرور ہوگیا ہے۔