نیش وِل سے ایک گھنٹے کے مسافت پر مرفریسبورو نامی ایک قدیم جنوبی قصبہ واقع ہے ۔ اس کی سڑکوں کے دونوں طرف اونچے اونچے درخت ہیں، اور کورٹ ہاؤس کی تاریخی عمارت پر انجیل مقدس لگی ہوئی ہے ۔
سڑک کے پار، عدالت کی نئی عمارت میں، ایک مقدمے کی سماعت جاری ہے ۔ یہ وکیل لوگوں کے ایک گروپ کی نمائندگی کر رہے ہیں جن کی کوشش ہے کہ مقامی مسلمان شہر کے نواح میں ایک کمیونٹی سینٹر تعمیر نہ کرنے پائیں۔ یہ سینٹر ایک سوئمنگ پول، ایک قبرستان، اور ایک مسجد پر مشتمل ہو گا۔ عدالت میں اس کمیونٹی سینٹر کے حامی اسے دیہی علاقے کے ایک چرچ کی عمارت کہتےہیں۔ لیکن وکیل کا خیال کچھ اور ہے ۔’’یہ عبادت گاہ جہاد کے اسلحہ خانے کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے ۔
مقامی شہری سوزین کوئنر مقدمے کی کارروائی دیکھ رہی ہیں۔ مرفریسبورومیں مسلمان کئی عشروں سے رہتے آئے ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ گیارہ ستمبر 2001 سے پہلے تک، وہ ان کے مذہب کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں۔ ’’نائن الیون کے بعد، مجھے اسلام کے بارے میں جو کچھ ملا، میں نے اسے پڑھنا شروع کر دیا کیوں کہ میں جاننا چاہتی تھی کہ یہ کس قسم کی سوچ ہے جس سے لوگوں کے ذہن میں اتنی زیادہ نفرت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ بے گناہ لوگوں کو ہلاک کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘
ردرفورڈ کاؤنٹی نے ، جس میں مرفریسبوروواقع ہے، ایک سال قبل اس نئے اسلامی سینٹر کی تعمیر کی منظوری دی تھی ۔ لیکن پھر پورے ملک میں نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے نزدیک ایک مسلم سینٹر کی تعمیر کا تنازع کھڑا ہو گیا۔
مرفریسبورومیں اسلامی سینٹر کی تعمیر کا منصوبہ مقامی انتخابات کے دوران ایک اختلافی مسئلہ بن گیا۔ توڑ پھوڑ کرنے والوں اور آگ لگانے والوں نے تعمیر کے مقام کو اپنی کارروائیوں کا نشانہ بنایا۔
اب یہ جگہ ایک کھلا میدان ہے جہاں مستقبل میں پارکنگ لاٹ بنانے کے لیے کچھ سامان پڑا ہوا ہے ۔ امام اسامہ بہلول کہتے ہیں کہ مرفریسبورو کے ایک ہزار مسلمان گھرانوں کے لیے عبادت کی موجودہ جگہ چھوٹی پڑ گئی ہے ۔’’مرفریسبورو میں مسلمان کمیونٹی کا خواب یہ ہے کہ زمین کے اس ٹکڑے پر کمیونٹی سینٹر تعمیر کیا جائے۔ ہم یہاں نماز کے لیے ایک ہال تعمیر کریں گے، جسے ہم مسجد کہیں گے، سماجی سرگرمیوں کے لیے ایک جگہ ہو گی، اور لڑکیوں کے لیے ایک سوئمنگ پول ہوگا۔ انہیں بڑی شدت سے اس کا انتظار ہے ۔‘‘
بہلول کہتے ہیں کہ اس قسم کے الزامات کہ مسلمان لیڈروں نے شدت پسند گروپوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے، بالکل غلط ہیں۔ اگر کسی کے بارے میں دہشت گردی کی حمایت کا شبہ ہوا، تو اسے قانون نافذ کرنے والے حکام کے حوالے کر دیا جائے گا۔ تا ہم مسجد کی تعمیر کی جو مخالفت ہوئی ہے مرفریسبورو کے مسلمانوں کو اس پر بڑی حیرت ہوئی ہے ۔
مسلمان بچوں کے ایک ساکر گیم کے موقع پر، کونسلر ڈیما سبینٹی کہتی ہیں کہ ان میں سے بہت سے بچوں کو اپنی زندگی میں پہلی بار تعصب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔’’یہ بچے میرے پاس آتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ میرا دوست مجھے دہشت گرد کیوں کہتا ہے، اور میری امی کی دوست مجھے اپنے دوستوں سے کیوں ملنے نہیں دیتی، اور میں اپنی دوست کے گھر کیوں نہیں جاسکتی؟ ‘‘
وہ کہتی ہیں کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد بھی، مسلمان یہاں آرام سے رہتے رہے ہیں۔
کیون فشر ایک عدالتی دستاویز پڑھ رہے ہیں جو انھوں نے اپنے سیل فون کی میموری میں محفوظ کر لی ہے ۔ وہ اس مقدمے میں ایک اہم فریق ہیں جس کا عنوان ہے فشر بمقابلہ ردرفورڈ کاؤنٹی۔ انہیں ڈر ہے کہ نئے سینٹر کی وجہ سے اس شہر میں جہاں رواداری ہے اور لوگ آرام سے رہتے ہیں، بہت زیادہ مسلمان آ جائیں گے۔’’اس کمیونٹی میں سب لوگ ایک دوسرے سے محبت کر تے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس مسجد سے یہ کمیونٹی مکمل طور سے تبدیل ہو جائے گی؟ مشی گن میں ڈئربورن پر نظر ڈالیئے ۔ آپ خود کہہ اٹھیں گے کہ ہم اپنی کمیونٹی کو ڈئر بورن کی طرح بنانا نہیں چاہتے۔‘‘
ریاست مشی گن کا قصبہ ڈئر بورن پورے امریکہ میں عربوں کی بڑی آبادی کے لیے مشہور ہے ۔ لیکن مرفریسبورو میں سب لوگوں کو اپنی بستی کے "Dearborn South." بن جانے پر تشویش نہیں ہے ۔
بلیک مین یونائیٹڈ میتھو ڈسٹ چرچ میں، مختلف مذاہب کی عورتیں مقامی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے جمع ہوئی ہیں۔ ریورینڈ لوسنڈا نیلسن کہتی ہیں کہ مرفریسبورو میں رہنے والوں کو یہ عادت پڑی ہوئی ہے کہ چیزیں جیسی ہمیشہ سے ہیں، ویسی ہی رہیں۔’’یہ لوگ اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں، اور انہیں دنیا بدلتی نظر آتی ہے ۔ وہ اپنے صدر کو دیکھتے ہیں جو ان جیسا نظر نہیں آتا، تو انہیں خوف محسوس ہونے لگتا ہے کہ ان کا طرزِ زندگی، ان کا مذہب، ان کے عقائد ، سب کچھ ختم ہو جائیں گے۔‘‘
امریکہ کے ایسے صدر کے انتخاب سے جن کے نام کا بیچ کا حصہ مسلمانوں جیسا ہے، ممکن ہے کچھ لوگوں کو پریشانی ہوئی ہو۔ لیکن نئے اسلامی سینٹر کی مخالفین بھی یہ بات مانتے ہیں کہ اگر گیارہ ستمبر کے حملے نہ ہوئے ہوتے، تو امکان یہی ہے کہ یہاں رہنے والے مسلمانوں کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا، جیسا کے کئی عشروں سے ہوتا آیا تھا۔