ایک طویل عرصے سے امریکہ اور دنیا بھر کی حکومتیں گیارہ ستمبر، 2001 کے واقعات کے لیے القاعدہ کو موردِ الزام ٹھہراتی رہی ہیں۔ القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن تک نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔ لیکن گزشتہ عشرے کے دوران، بعض لوگوں نے اس وضاحت کے خلاف دلائل دیے ہیں۔ بلکہ اگر آپ انٹرنیٹ کے کسی سرچ انجن میں نائن الیون کے الفاظ ٹائپ کریں، تو سب سے اوپر جو پانچ فقرے اُبھریں گے ان میں ایک نائن ون کی سازش ہو گا۔ اور کچھ انتہائی عجیب و غریب سازشوں میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے خود اپنے آپ پر حملہ کیا تھا، یا یہ قیاس آرائی کی جاتی ہے کہ یہ حملے اسرائیل نے کیے تھے تا کہ مسلمانوں کو بدنام کیا جا سکے۔
2008ء میں (پی آئی پی اے) یا پروگرام آن انٹرنیشنل پالیسی ایٹی ٹیودز کے محققوں نے دنیا بھر میں 21 ملکوں کے لوگوں سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ ان کے خیال میں نائن الیون کے حملوں کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ پی آئی پی اے کے ڈائریکٹر اسٹیفن کل کہتے ہیں کہ اس سروے کے نتائج حیران کُن تھے۔
تقریباً نصف ملکوں میں ایسے لوگوں کی اکثریت تھی جنھوں نے القاعدہ جیسی تنظیم کا نام لیا۔ اور ان ملکوں تک میں جو نیٹو میں ہمارے اتحادی ہیں، ایسے لوگوں کی اکثریت بہت بڑی نہیں تھی۔ کسی بھی کیس میں یہ اکثریت دو تہائی سے زیادہ نہیں تھی۔ تو دنیا میں اس بارے میں اتفاقِ رائے نہیں ہے۔
اسٹیفن کل کہتے ہیں کہ محققوں نے اس سروے کے نتائج کو امریکہ کے بارے میں لوگوں کے رویوں سے ملا کر دیکھا۔ جن لوگوں کا رویہ امریکہ کے بارے میں زیادہ منفی تھا، ان میں یہ ماننے کا رجحان کم تھا کہ یہ حملے القاعدہ نے کیے ہیں۔
گریم بینرمین جو امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی سے وابستہ رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں اگر یہ تحقیق نائن الیون کے فوراً بعد کی جاتی ، تو نتائج مختلف ہوتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میرے خیال میں ابتدا میں بقیہ تمام دنیا نے ہماری حمایت کی۔ ہر کوئی امریکہ کے ساتھ تھا۔ ہر کوئی ہمارا طرفدار تھا۔ وہ لوگ بھی جو عام طور سے ہمارے بہترین دوست نہیں تھے، وہ بھی یہی کہہ رہے تھے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ پر کیا گزری ہے۔‘‘
لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب امریکہ نے عراق کی جنگ شروع کی ، تو اس کے بارے میں خیر سگالی کےجذبات بڑی حد تک ختم ہو گئے۔ بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ عراق گیارہ ستمبر کے حملوں میں ملوث نہیں تھا۔
امریکہ اور عراق کی جنگ کے بعد، مسلمان ملکوں میں امریکہ کے بارے میں منفی رویوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ 2008ء میں، مشرقِ وسطی ٰ میں جن لوگوں کی رائے معلوم کی گئی، ان کی اکثریت نے یا تو یہ کہا کہ القاعدہ نائن الیون کی ذمہ دار نہیں ہے، یا یہ کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔
اس سال پیو ریسرچ سینٹر کے سروے کے مطابق، سروے میں شامل مسلمانوں کی اکثریت کا اب بھی یہی خیال ہے کہ عرب ان حملوں کے ذمہ دار نہیں تھے۔
بین الاقوامی تعلقات کے ایک پاکستانی ماہر، اشتیاق احمد کہتے ہیں کہ مسلمان دنیا میں امریکہ کے بارے میں منفی رویوں کی وجہ صرف امریکہ خارجہ پالیسیاں نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکمران طبقے کے لوگ، خاص طور سے پاکستان میں، امریکہ مخالف رویوں کی حوصلہ افزائی کرتےہیں، امریکی امداد کی اہمیت کم کرتے ہیں، اور ملک کے اندر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے امریکہ اور مغربی ملکوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اشتیاق احمد کے مطابق ’’بنیادی بات یہ ہے کہ حکمرانوں کے خلاف عوام میں غم و غصہ موجود ہے، اور حکمراں اس غصے کو امریکہ جیسی بڑی طاقتوں کی طرف منتقل کرنے کے طریقے تلاش کرتے رہتےہیں۔ مصر میں، سعودی عرب میں، خلیج میں، اور پاکستان میں یہی ہوا ہے۔ تو ہر چیز میں سازش دیکھنے کا یہ رجحان، نائن الیون کے واقعے کے دس برس بعد بھی ختم نہیں ہوا ہے، بلکہ کسی حد تک اور زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔‘‘
لیکن اشتیاق احمد کہتے ہیں کہ اس صورت ِ حال کو بہتر بنانا ممکن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی اور دوسرے مسلمان علاقوں میں امریکہ کے عمل دخل میں کمی، اور اس کے ساتھ ہی تجارت اور امداد میں اضافے سے، امریکہ کے بارے میں تاثر تبدیل ہونا شروع ہو سکتا ہے ، اور شاید نائن الیون کے بارے میں سازشوں کی بے سرو پا کہانیاں ختم ہو سکتی ہیں۔