امریکہ میں مقیم مسلم رہنمائوں نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر اظہارِ اطمینان کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ القاعدہ رہنما کی موت سے 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد امریکی معاشرے میں مسلمانوں کے بارے میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران امریکی مسلمانوں کی جانب سے اسامہ بن لادن کو امریکی معاشرے میں ان کی زندگیاں مشکلات سے دوچارکرنے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے۔ امریکی مسلمانوں کے بقول گیارہ ستمبر کے حملوں کا حکم دے کر اسامہ نے امریکہ میں بسنے والے تمام مسلمانوں کو شک کے کٹہرے میں لاکھڑا کیاتھا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کے ہاتھوں القاعدہ رہنما کی ہلاکت کا امریکی مسلمانوں کی جانب سے خیر مقدم کیا جارہا ہے۔
'مسلم پبلک افیئرز کونسل' کی واشنگٹن شاخ کے سربراہ حارث ترین نے اسامہ کی ہلاکت کی اطلاع کو اپنے لیے باعثِ اطمینان قرار دیا۔
'وائس آف امریکہ'سے گفتگو میں حارث کا کہنا تھا کہ اسامہ کے قتل کی خبر ملنے کے بعد وہ تمام رات جاگتے رہے اور امریکہ میں مقیم مسلمانوں خصوصاً نوجوانوں سے رابطوں میں مصروف رہے۔
ان کے بقول ای میل، فیس بک، ٹیلی فون کالز اور ٹوئٹر کے ذریعے کیے گئے اپنے تمام رابطوں کے ذریعے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امریکہ کے مسلمانوں کے نزدیک اسامہ بن لادن تاریخ کا ایک ایسا باب تھا جسے وہ بند کردینا چاہتے ہیں۔
حارث ترین سمجھتے ہیں کہ القاعدہ رہنما کی موت کے بعد شدت پسندوں اور ان کے نظریات کی اثر پذیری میں کمی آئے گی۔ ان کے بقول مسلمانوں کی عظیم اکثریت بن لادن کو ایک شہید کا درجہ نہیں دیتی۔
ترین کے نزدیک مشرقِ وسطیٰ میں تبدیلی کیلیے چلنے والی جمہوری تحریکیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ القاعدہ کے انتہا پسند نظریات کی مسلم معاشروں اور اقدار میں کوئی جگہ نہیں۔
'اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ' سے منسلک امام محمد مجیدسمجھتے ہیں کہ بن لادن کی موت 11/9 حملوں میں ہلاک ہونے والے مختلف العقیدہ افراد کے اہلِ خانہ کیلیے باعثِ تسکین ہوگی۔
مجید کے بقول وہ امریکی صدر براک اوباما کے اس بیان سے متفق ہیں کہ اسامہ بن لادن مسلمانوں کا رہنما نہیں بلکہ ان کا قاتل تھا۔ بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مجید یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک بن لادن کی زندگی ایسی تھی ہی نہیں کہ انہیں مسلمان قرار دیا جاسکے۔
اپنی اس بات کی دلیل میں مجید مسلمانوں کے پیغمبر محمد صلی اللہ علی وسلم کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ "مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں (مفہوم)"۔ ان کے نزدیک بن لادن کی زندگی اس حدیث پر پوری نہیں اترتی۔