پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کواُن کے ملک کے ساتھ مشترکہ آپریشن کر کے ہلاک نہیں کیا گیا ، لیکن امریکہ کے ساتھ ایک دہائی پر محیط تعاون نے ”مہذب دنیا کودرپیش اس خطرے“ کے خاتمے میں مدد دی۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں پاکستان پر کی جانے والی اُس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف جارحانہ پالیسی اپنانے سے گریزاں ہے، صدر زرداری نے کہا ہے کہ اُن کا ملک شاید دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہے ۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اس بات سے مطمئن ہے کہ اُس نے القاعدہ کے اُس قاصد کی نشاندہی کی جس نے امریکی حکام کو بن لادن تک پہنچنے میں مدد دی۔
’’بعض امریکی ذرائع ابلاغ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان صدق دل سے دہشت گردی کے خاتمے کا ارادہ نہیں رکھتا، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم جن دہشت گردوں کا پیچھا کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں حقیقت میں اُن کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ یہ بے بنیاد قیاس آرائیاں سنسنی خیز خبریں تو بن سکتی ہیں لیکن یہ حقائق کی ترجمانی نہیں کرتیں۔“
پاکستانی صدر کا کہنا ہے کہ بن لادن کی موت کے بعد معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف جنگ جیتی نہیں گئی ہے لیکن اس مہم کے خاتمے کی شروعات ہوگئی ہیں۔
امریکہ کو مطلوب ترین دہشت گرد اُسامہ بن لادن کو امریکی اسپیشل فورسز اتوار اور پیر کی درمیانی شب ایبٹ آباد چھاؤنی کے علاقے میں اُس کی انتہائی محفوظ پناہ گاہ پر کارروائی کر کے ہلاک کرنے کے بعد اُس کی لاش اپنے ساتھ لے گئے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ لاش کی شناخت کا عمل مکمل ہونے کے بعد اسے عین اسلامی رسومات کے مطابق سمندر برد کردیا گیا۔
آپریشن میں اُسامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ سمیت دو دیگر افراد بھی مارے گئے جن میں وہ قاصد بھی شامل ہے جس کی نشاندہی بقول صدر زرداری کے پاکستانی حکام نے کی تھی اور جس نے امریکیوں کو بن لادن کی پناہ گاہ تک پہنچنے میں مدد کی۔
لیکن پاکستانی صدر کے اس دعوے کے برعکس امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق قاصد کی نشاندہی سی آئی اے کے لیے کام کرنے والے پاکستانی ایجنٹوں نے گذشتہ جولائی میں کی تھی جب وہ پشاور کے قریب ایک سفید رنگ کی ایک سوزوکی گاڑی میں سوار تھا۔
واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں صدر زرداری نے اس تنقید کا کوئی جواب نہیں دیا ہے کہ اتنے طویل عرصے تک پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اسامہ بن لادن کی پناہ گاہ کا پتا لگانے میں کیوں ناکام رہیں باوجود اس کے وہ ایبٹ آباد میں فوج کی مرکزی کاکول اکیڈمی کے سائے میں ایک مخصوص انداز میں تعمیر کیے گئے گھر میں رہائش پذیر تھا۔
اطلاعات کے مطابق امریکی اسپیشل فورسز نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے بعد اس کی رہائش گاہ سے اپنے ساتھ بڑی تعداد میں دستاویزات اور وہاں موجود کمپیوٹر اپنے ساتھ لے گئے لیکن وہاں موجود خواتین اور بچوں کو وہیں چھوڑ گئے۔ پاکستانی حکام کے مطابق یہ لوگ اب پاکستان کی تحویل میں ہیں اور بچوں کی عمریں دو سے بارہ سال بتائی گئی ہیں۔
امریکی حکام کے حوالے سے شائع شدہ اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ بن لادن کو اس وقت سرمیں گولی مار کر ہلاک کیا گیا جب اس نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستانی اخبارات میں مقامی سکیورٹی حکام کے حوالے سے چھپنے والی اطلاعات کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ اسامہ بن لادن کو اس کے اپنے ہی ایک محافظ نے گولی مار کر ہلاک کردیا کیونکہ القاعدہ کے 54 سالہ رہنما نے اپنے محافظوں کو ہدایت کر رکھی تھی کہ اس کی گرفتاری کے خطرے کو بھانپتے ہی اسے گولی مار دی جائے۔
لیکن یہ امر واقع ہے کہ امریکہ کو انتہائی مطلوب شخص کے خلاف آپریشن کے حالات و واقعات کی تفصیلات مبہم اور تضادات سے بھرپور ہیں۔ امریکی حکام کے مطابق اس کارروائی میں چار ہیلی کاپٹروں نے حصہ لیا جب کہ پاکستانی حکام ان کی تعداد دو بتاتے ہیں جن میں سے ایک تکنیکی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہوگیا جس کے بعد اس میں سوار اسپیشل فورسز کو دوسرے ہیلی کاپٹر میں منتقل کردیا گیا اور جگہ کی کمی کے باعث گھر کے اندر موجود خواتین اور بچوں کو وہیں چھوڑنا پڑا۔