رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: واشنگٹن اسلام آباد کا محتاج نہیں


امریکی اخبارات سے: واشنگٹن اسلام آباد کا محتاج نہیں
امریکی اخبارات سے: واشنگٹن اسلام آباد کا محتاج نہیں

کیا روس امریکہ کو افغانستان سے نکلنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے؟ یہ سرخی ایک فکر انگیز مضمون کی ہےجسےاخبار ’نیو یارک ٹا ئمز‘ میں امریکہ کے محکمہٴ دفاع کے ایک سابق انڈر سکریٹری ڈو ذا کھائمDOV ZAKHEIM اور واشنگٹن کے ایک تحقیقی ادارے کے محقق پال سانڈرزPAUL SAUNDERS نے تحریر کیا ہے۔

مضمون کا پس منظر پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں بڑھتا ہوا بگاڑ ہے جس میں ایک حالیہ نیٹو فضائی حملے میں د و درجن پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت اور پاکستان کی طرف سے نیٹو کی رسد کے راستے کو بند کرنے کے بعد شدّت آئی ہے۔

چنا نچہ، مضمون نگاروں کا خیال ہے کہ بجائے پاکستان کے رسد کے راستے پر حد سے زیادہ تکیہ کرنے کے امریکہ کو روس کے ساتھ تعاون بڑھانا چاہئیے، جس نے افغانستان کو جانے والے اوروہاں سے آنے والے فوجی نوعیت کے سامان یا نفری کے نقل و حمل میں روز افزوں اہم کردار ادا کیا ہے،کیونکہ یہ سودا ایک تو متبادل ثابت ہوگا اور دوسرے اُن جنرلوں کے لئےایک انتباہ بھی، جن کا مضمون کے بقول، پاکستان پر تصرّف ہے۔

اسے نیرنگیئ تقدیر کہیئے کہ سرد جنگ کے خاتمے تک اورتقریبًا ایک عشرے تک امریکہ نے روسیوں کے خلاف بر سرِ پیکار مجاہدین کی حمایت میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا ۔ لیکن، اس وقت امریکہ کے لئےروسیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ایک کلیدی ضرورت بن گیا ہےتاکہ وہ پاکستان کی تعطّل کی شکار سیاست اور وسط ایشیا میں اس کے عزائم کا یرغمال نہ بن کر رہ جائے۔

رسد کے راستوں کو بڑھانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ،مضمون میں کہا گیا ہے کہ اس سےنیٹو افواج کی سیکیورٹی میں بہتری آنے کے ساتھ ساتھ یہ اشارہ بھی ملے گا کہ واشنگٹن اسلام آباد کا محتاج نہیں ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان ، امریکی افواج کے خلاف کاروائی کرنے والے دہشت گرد نیٹ ورکس کو پناہ گاہیں فراہم کرنے اور ان کی حمائت کرنے کی پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے پر مجبور ہو جائے۔

مضمون کےمطابق پچھلے دو سال کے دوران، افغانستان میں اتحادی فوجوں کے سامان رسد کا52 فیصد روس اور وسط ایشیا کے نئے راستے سےمنگوایا گیا تھا۔2009ء کے ایک معاہدے کے تحت سوا دو لاکھ امریکی فوجیوں نے آنے جانے کے لئےروسی فضائی حدود کا استعمال کیا ہے۔ آمدورفت کے شمالی راستے ، پاکستانی راستوں کے مقابلے میں کہیں کم خطرناک ہیں اور جب افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد میں کمی کرنے کا آغاز ہوگا، تو ان راستو ں کی اہمیت مزید بڑھ جائےگی ۔

ان مصنّفین کا کہنا ہے کہ ناقدین کے لئے یہ پریشانی کی بات ہوگی کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کی مراجعت کے لئے شمالی راستوں پر تکیہ کرنے سے روس پر انحصار بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ لیکن، افغانستان کے جائے وقوع کے پیشِ نظر امریکہ کے لئے اِس علاقے تک رسائی کے لئےدوسرے ملکو ں پر تکیہ کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ بہر حال، دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا یا پاکستان یا پھر روس اور وسط ایشیائی ملک۔ اور مصنّفین کہتے ہیں کہ پاکستا ن کے برعکس روس نے کبھی ایسے شدت پسندو ں کو پناہ نہیں دی جو میدان جنگ میں امریکیوں کو ہلاک کر رہے ہیں ۔

’ فلاڈلفیا انکوئرار‘ میں ڈگلس پایک غلامی کے بارے میں ایک کالم میں رقمطراز ہیں کہ جیسے جیسے مزید لوگوں کو معلوم ہوتا جا رہا ہے کہ دنیا میں ابھی غلامی کی لعنت موجود ہے، اُن پرتلخ حقائق کا بھی انکشاف ہوتا جارہا ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے کالم نگار کاکہنا ہے کہ غربت ، ٹھگی ، بد عنوانی، اور امتیازی سلوک کے ہوتے ہوئے ایک انسان پر قبضہ ٴقدرت حاصل کرنے پر تقریباً نوے ڈالر کی لاگت آتی ہے اور دنیا میں اس وقت کم از کم دو کروڑ ستر لاکھ غلام موجود ہیں۔ مصنف نے سماجی سرگرم کار کن کیوِن بیلز کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان غلاموں کی مدد سے سالانہ 32 ارب ڈالر کا منافع کمایا جا رہا ہے۔

مصنّف کا کہنا ہے کہ غلامی کے خلاف تحریک چلانے والوں کو معلوم ہےکہ کرنا کیا ہے۔ برازیل سے لے کرآیوری کوسٹ اور کمبوڈیا تک سرگرم کارکن اور سماجی کارکن غلامی کے اس گھناؤنے جرم کے خلا ف مصروفِ کا ر ہیں، مجرموں کو سزائیں دلوا رہے ہیں اور مظلوموں کو سہارا دے رہے ہیں ۔ انہیں میں سے ایک ’انٹرنیشنل جسٹس مشن‘ نامی ادارے نے ہزاروں غلاموں کو آزاد کرایا ہے اور پولیس اور عدالتوں کو ان مظلوموں کی مدد کرنے کا قائل کیا ہے۔ لیکن ان نیک لوگوں کی کاوشوں سے مشکل ہی سے اس ذلیل دھندے میں کوئی خاص فرق آیا ہے۔

اور آخر میں ’ نیویارک ٹا ئمز ‘ہی کی یہ رپورٹ جس کے مطابق نومبر کے مہینے کے اعدادوشمار سے ظاہرہوتا ہے کہ اس دوران امریکہ میں روزگار کے مواقع میں ایک لاکھ بیس ہزار کا اضافہ ہوا ہے، جو بقول محکمہ محنت کے،ایک کروڑ چالیس لاکھ بے روزگاروں کے ہوتے ہوئے نہایت معمولی سا اضافہ ہے۔ لیکن، اخبار کے بقول، ایک اور سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ بے روزگاروں کی مجموعی شرح ، اکتوبر کے مہینے کے مقابلے میں آٹھ اعشاریہ چھ رہ گئی ہے، جو مارچ 2009 کے بعد بے روزگاروں کی سب سے کم شرح ہے ۔ یہ اعدادو شمار ایسے میں آئے ہیں جب کانگریس میں معیشت کو مہمیز لگانے کے اضافی اقدامات کرنے پر بحث جاری ہے اور یورپ میں قرضے کا بحران چل رہا ہے َ، جس کی وجہ سے بحالی کے عمل کو خطرہ ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG